Pages

Two Faces One Heart - Reality of Buddies Zardari-Nawaz

Corruption in Pakistan- A glimpse:


  • Wise Enemy is batter than Foolish & Corrupt Friend


    Shareاَب لکیر پیٹا کر ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان
    میاں نواز شریف تقریباً تیس سال سے میدان سیاست میں ہیں۔ پنجاب میں بھی حکمرانی کی اور وفاق میں بھی۔عوام ان سے دوربینی اور دور اندیشی اور تجربہ کی وجہ سے بہت اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ کہاوت کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور انسان کا غلطی سے چولی دامن کا ساتھ ہے، ان پر بھی اثر انداز ہوا ہے اور ان غلطیوں کا اُنہوں نے بہت خمیازہ بھگتا ہے اور بڑی قیمت ادا کی ہے۔مثال کے طور پر ایک نہایت اعلیٰ اور قابل اور سینئر ترین جنرل علی قلی خان کا حق مار کر ایک نہایت مشتبہ کردار کے جنرل مشرف کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ خدا جانے (عوام تو جانتے ہیں) کہ یہ اقدام اُنہوں نے کیوں اور کس کے غلط مشورہ پر کیا۔ اس غلطی کی سزا تقریباً پھانسی سے ملنے والی تھی وہ جسٹس جعفری صاحب اور سعودی حکمران کی مہربانی سے بچ گئے۔ اُمید یہی تھی کہ اتنی بڑی غلطی اور اس کی سزا بھگتنے کے بعد میاں صاحب بہت کچھ سیکھ لیں گے لیکن یہ اُمید خواب و خیال بن کر رہ گئی۔ اُنھیں اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی کے معاملہ میں عقل و فہم سے نہیں نوازا اور اب بھی اُنہوں نے خود کو ایسے مشیروں سے گھر وایا ہوا ہے جہاں کہیں ان کو کچھ کھیلنے کی گنجائش ملتی ہے وہاں یہ مشیر اس کو فوراً سبوتاژ کردیتے ہیں۔ عمران خان نے ابھی لاہور میں اشارہ دیا کہ اگر میاں صاحب اپنے اثاثے جو غیر ممالک میں ہیں ان کو بتلادیں تو وہ اتحاد کرسکتے ہیں۔ ابھی ایک دن بھی نہ گزرا تھا کہ ان کے مشیر خاص نے فوراً اس کو سبوتاژ کردیا اور عمران خان پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔ انہوں نے زرداری صاحب سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ بہتر ہے کہ رات کے اندھیرے میں، زرداری کے مشورہ کے مطابق، ایوان صدر جاکر سیاست کا قاعدہ پڑھ لیں۔ ان مشیروں کی ہٹ دھرمی اور غلط مشوروں نے نواز شریف کو بالکل تنِ تنہا کھڑا کردیا ہے اور یہ اب بھی کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ میں نے چند ہفتہ پیشتر لاہور میں علّامہ اقبال میڈیکل کالج میں مہمان خصوصی کے طور پر تقریر میں مشورہ دیا تھا کہ اب وہ سینئر سیاست داں بن کر آرام سے بیٹھ کر وہی رول ادا کریں جو سنگاپور کے سینئر سیاست داں لی کوان یو نے ادا کیا ہے اور اب سیاست و پارٹی کی باگ ڈور میاں شہباز شریف کو دے دیں وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کبھی بھی ان لوگوں سے جان نہیں چھڑا پائیں گے جنہوں نے ان کو گھیر رکھا ہے۔
    2008 کے الیکشن کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اس طرح گھی شکر کی طرح نظر آرہی تھیں گویا ایک جان اور دوقالب ہوں۔ زرداری میاں صاحب کو بڑا بھائی، مستقبل کا ان کا وزیر اعظم وغیرہ بنا کر پیش کررہے تھے۔ دونوں باچھیں کھلی تصاویر اور جَپھّی لگاتی تصاویر آج بھی اخبارات اور ٹی وی کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ برسوں پرانی عداوت کے بعد پہلی بار دوستی اور موافقت کی فضا اور میثاقِ جمہوریت نام کی پالیسی سے یہ اُمید بندھی تھی کہ اب ملک میں سیاسی پختگی اور دانائی آگئی ہے اور سب ملک کی اور عوام کی بہتری کے لئے کام کریں گے مگر غالباً کوئی بھی زرداری صاحب کی ”سیاسی چال بازیوں“ سے واقف نہ تھا ، اس مفاہمت پر پہلی ضربِ شدید اس وقت لگی جب زرداری صاحب نے ضمیر فروش ڈوگر عدالت سے نواز اور شہباز کو نااہل قرار دے کر پنجاب پر قبضہ کرنے کی گندی کوشش کی اور صدیوں پرانی نصیحت سچ ثابت ہوگئی۔ ” آزمودہ را آزمودن جہل است“ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے۔ اس کے بعد پی پی پی کی حالت مستحکم ہونے کے بعد زرداری صاحب نے ججوں کے فیصلہ پر اتفاق سے وعدہ توڑ دیا اور کہہ دیاکہ یہ وعدے سیاسی تھے اور قرآن و حدیث نہ تھے۔ وہ غالباً قرآنی احکامات سے ناواقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدے کی پاسداری کا سخت حکم دیا ہے۔ بہرحال نواز شریف کو ایک کے بعد ایک جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی عقل و فہم نے کام نہ کیا اور وہ آنکھیں کھولے غلاظت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان تقریباً چار برسوں میں ایم کیو ایم ، جے یوآئی وغیرہ کئی بار علیحدہ ہوئے اور حکومت سے مل گئے۔ ہر مرتبہ یہ بلیک میلنگ کرتے تھے اور ہر مرتبہ زرداری صاحب ان کو میٹھی گولی دیدیتے تھے اور واپس بلا لیتے تھے اور اب تو ایم کیو ایم کو پی پی پی نے اپنی ہی پارٹی کا ایک حصّہ قرار دیا ہے اور الطاف کو بڑا بھائی کہہ دیا ہے ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ الطاف حسین نے ان کا ہم خیال بن کر شہباز شریف اور نواز شریف کو نشانہ بنایا اور اپنی اداؤں اور شاعری سے بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ ایک قومی لیڈر سے پہلی پریس کانفرنس میں ایسی اَداکاری بہت ہی خراب اسٹیٹ میں تھی۔ زرداری صاحب نے ایک اور ماہرانہ چال چلی کہ ق۔لیگ (جس کو وہ قاتل لیگ یعنی بینظیر کا قاتل) کہتے تھے اس کو گلے لگا لیااور اس طرح ایم کیو ایم اور جے یو آئی وغیرہ کی اہمیت کو زیرو کردیا۔ نواز شریف فرینڈلی اپوزیشن کا ڈرامہ رچاتے رچاتے بالکل تنہا رہ گئے اور اب جبکہ سانپ نکل گیا ہے یہ لکیر پیٹ رہے ہیں۔ مگر ”وہ بات کہاں مدن کی سی“۔ اس طویل عرصہ میں سادہ لوح عوام کی سمجھ میں نواز شریف کی پالیسی قطعی نہیں آئی۔ کبھی وہ ان سے ایک سانس میں حکومت پر سخت تنقید سن رہے تھے پھر دوسری سانس میں وہ زرداری صاحب کی ڈھال بن رہے تھے اور جمہوریت کو بچانے کے دعوے کررہے تھے۔ یہ دوغلی یا مبہم پالیسی عوام سمجھ گئے اور نواز شریف کی مقبولیت میں بہت کمی آگئی ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت عوام نے لاہور میں 30 اکتوبر کے عمران خان کے جلسے میں کثرت سے شرکت کرکے دیدیا۔ نواز شریف اکیلے کبھی بھی اس حکومت کو نہ گراسکتے ہیں اور نہ ہی ہلا سکتے ہیں اگر وہ اب بھی سمجھداری سے دائیں جانب کی مذہبی پارٹیوں، تحریک انصاف اور ق۔لیگ کو ملالیں، جو زیادہ مشکل نہیں (عقل و فہم کی ضرورت ہے) تو موجودہ نااہل حکمرانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر مجھے شک ہے کہ میاں صاحب کے مشیران ان کو تباہ کرکے اپنے اپنے بنگلوں میں بیٹھ کر مزے اُڑائیں گے۔
    دیکھئے، ق۔لیگ تین سال سے زیادہ حکومت سے دور رہی اور ان کے لیڈران کوشش کرتے رہے کہ ن۔لیگ کی جانب سے اشارہ ملے تو وہ چل کر ان کے پاس جائیں اور ملک کو لوٹ مار اور بدامنی سے بچائیں مگر میاں صاحب نہایت متکبرانہ بیانات دیتے رہے اور ایک غیر دشمنانہ ماحول کو سانپ اور نیولے کی لڑائی میں تبدیل کردیا۔ اس مناسب موقع کو بھانپ کر زرداری صاحب نے ایک ماسٹر اسٹروک لگایا اور ق۔لیگ کو تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر اور اناء کو چھوڑ کرگلے لگالیا۔ ان کی اس چال نے نواز شریف کی اہمیت ختم کردی اور ایم کیو ایم بھی اُسی تنخواہ کو قبول کرکے حکومت میں شامل ہوگئی اور اب نواز شریف پر یہ پرانا شعر صادق آرہا ہے۔
    اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
    اکیلے پھر رہے ہو یُوسف بے کارواں ہوکر
    اب اس بات کا خاصا خطرہ اور امکان ہے کہ آئندہ الیکشن میں ن۔لیگ اس وقت سے بھی بُری حالت میں ہوگی۔ پہلے حکومت کی چمچہ گیری کرکے اُنہوں نے اپنی مقبولیت پر کاری ضرب لگائی ہے اور اب تمام شور و غل، تنقید بیکار ہے اور اب ان کے چیخنے چلّانے پہ یہی مصرعہ صادق آتا ہے:
    ”گیا ہے سانپ نکل اَب لکیر پیٹا کر“
    http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=572784

  •                  2: Top Ten Richest Men of Pakistan