Pages

پاکستان آزادی سے اب تک : کیا کھویا ، کیا پایا؟


پاکستانی قوم نےآزادی حاصل کرنے کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس بات کے تعین کے لیے خودپاکستان کی اہمیت کا تعین ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم جان ہی نہیں سکتے کہ ہم نے اپنے عشروں کے سفر کے دوران کیا کیا ہے؟
انسانی تاریخ میں تین حوالوں سے پاکستان کی اہمیت غیرمعمولی ہے:

1.  پاکستان کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ عصر حاضر میں پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے، جس کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا۔ بعض لوگ اس سلسلے میں اسرائیل کا نام بھی لیتے ہیں، لیکن یہ ایک غلط بحث ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پاکستان حقیقی معنو ں میں ایک مذہبی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی بنیاد یہودیوں کی بدنام زمانہ نسل پرستی پر رکھی ہوئی ہے۔ عصر حاضر میں قوموں کے آئین کو قوموں کے تشخص کے تعین کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ریاست ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا موازنہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان ایک عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل عالمی طاقتوں کی ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اول وآخر حق ہے اور اسرائیل اول و آخر باطل ۔

2. پاکستان کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ایک بہت بڑے تہذیبی و تاریخی مطالبے کا اظہار ہے۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ جو پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا، ۲۰ویں صدی میں برصغیر کی ملت اسلامیہ کو پیش آنے والی صورتِ حال کا حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دو قومی نظریہ ایک بہت پرانی چیز ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے یہ کہا ہے کہ پاکستان تو اس دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کے گہرے شعور کے بغیر کہی ہی نہیں جاسکتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کش مکش ہے۔  جہانگیر کے زمانے میں مسلمان سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے مغلوب نہیں تھے غالب تھے، لیکن مجدد الف ثانی ؒکے نزدیک سیاسی اور معاشی غلبے کی اہمیت نہیں تھی۔ ان کے نزدیک جو چیز اہم تھی وہ مسلمانوں کا جداگانہ مذہبی و تہذیبی تشخص تھا۔ اور مجدد الف ثانی کو اس تشخص کے تحفظ کی اتنی فکر تھی کہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی غلبے کے زمانے میں جہانگیر سے کہا کہ تم اکبر کی ان پالیسیوں کو ترک کرو جو مسلمانوں کے مذہبی و تہذیبی تشخص کو مجروح کررہی ہیں۔ غور کیا جائے تو مجدد الف ثانیؒ دراصل دو قومی نظریے پر ہی اصرار کررہے تھے۔ جہانگیر نے ابتدا میں مجدد الف ثانیؒ کی مزاحمت کی اور انھیں پابند سلاسل کیا مگر بالآخر اسے مجدد الف ثانی کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے ان کے مطالبے کے مطابق دربار میں سجدۂ تعظیم بھی منسوخ کیا اور گائے کے ذبیحے کی بھی اجازت دی، بلکہ اس نے محل میں گائیں ذبح کراکے ان کے گوشت سے کباب بنوائے۔
اس اعتبارسے دیکھا جائے تو برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی مجدد الف ثانی تھے لیکن دو قومی نظریہ صرف مجدد الف ثانی اور جہانگیر کی کش مکش میں ظاہر ہوکر نہیں رہ گیا۔اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کش مکش بھی اپنی اصل میں دو قومی نظریے کی کش مکش تھی۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ قرآن مجید اور گیتا کی تعلیمات کو آمیز کرکے ’ایک قومی‘ نظریہ ایجاد کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اکبر نے دین الٰہی کی صورت میں جو تجربہ نہایت بھونڈے انداز میں کیا تھا داراشکوہ وہی تجربہ انتہائی دانش ورانہ اور علمی سطح پر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اورنگ زیب کو اس ’خطرے‘ کا اندازہ تھا۔ اس لیے کہ وہ دو قومی نظریے کے معنی کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کش مکش میں اکابر علما اور صوفیہ اورنگ زیب کے ساتھ تھے۔
یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سرسیّداحمدخان کسی زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے، لیکن ہندی اُردو تنازعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا اور کہا کہ اگر مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انھیں اپنا پلیٹ فارم تخلیق کرنا چاہیے۔
اقبال بھی اپنے ابتدائی دو رمیں قوم پرست اور وطن پرست تھے اور انھیں خاکِ وطن کا ہرذرہ ’دیوتا‘ نظر آتا تھا اور وہ کہہ رہے تھے    ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندُستاں ہمارا
ہم بُلبلیں ہیں اس کی ، یہ گُلستاں ہمارا
مگر اقبال کی فکر میں بھی تغیر رونما ہوا اور چند ہی برسوں میں وہ     ؎
چین و عرب ہمارا ، ہندُستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
کہتے نظر آئے۔ محمد علی جناح کا معاملہ بھی عیاں ہے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انھیں ہندو مسلم اتحاد کی سب سے بڑی علامت قرار دیتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت ایسی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح ؒقائداعظم بن کر ابھرے اور انھوں نے دو قومی نظریے کی وضاحت پر جتنا زورِ بیان صرف کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ۱۹۳۰ء یا ۱۹۴۰ء میں سامنے آنے والی حقیقت نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔

3 پاکستان کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان عصر حاضر کا سب سے بڑا خواب ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے چنانچہ انسان کی تخلیقی قوت اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے ذریعے ہمیں ریاست مدینہ کے تجربے کو نیا قالب مہیا کرنا تھا۔ ایسا قالب جس کی روح قدیم اور جس کے اظہار یااسالیب کو نیا ہونا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ پاکستان کے جیسی کوئی ریاست تھی‘ نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مذہب کی بنیاد پر    الگ ریاست کے مطالبے کا حق ادا کرسکے، نہ ہم نے اپنی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت سے کوئی کام لیا، اور نہ ہم پاکستان ہی کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی صورت پیدا کرسکے۔
بلاشبہہ مذہبی جماعتوں اور علما کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان ’اسلامی جمہوریہ‘ تو  بن گیا مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ اسلام کو اس قیدخانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ حکومت و ریاست کے بندوبست پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، اور سود جنرل پرویز مشرف ہی کو نہیں میاں نواز شریف کو بھی اتنا عزیز ہے کہ انھوں نے اس کے خاتمے کے لیے دکھاوے کے لیے بھی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ہمارا نظام تعلیم صرف اتنا اسلامی ہے کہ اس میں اسلامیات ایک مضمون کے طور پر شامل ہے۔ ہمارے حکمران ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی آئین کی دفعہ ۶۲اور ۶۳کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک عہد جدید میں منتخب نمایندوں کا امین و صادق ہونا ممکن ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو مذاق اڑانے والے دفعہ ۶۲اور ۶۳کا مذاق نہیں اڑاتے‘ اسلام کے تصور صداقت و امانت کا مذاق اڑاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ۱۹۷۱ء میں ہم پاکستان کی جغرافیائی وحدت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے اور ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے بھارت کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ اس نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ قوم کو دھوکے میں مبتلا کرنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان بیرونی طاقتوں کی سازش اور بھارت کی مداخلت کے باعث الگ ہوا لیکن اتنے بڑے سانحات بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ داخلی عوامل یا داخلی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ہماری سب سے بڑی داخلی کمزوری یہ تھی کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک پاکستان کی تخلیق کے محرک اسلام کو اجتماعی زندگی میں مؤثر یا Functional بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ اگر ہم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک کچھ اور نہیں تو اسلام کے تصور عدل ہی پر عمل کررہے ہوتے تو بیرونی طاقتیں اور بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
٭ پاکستان کی گذشتہ ۷۰  سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ایٹم بم کی تخلیق ہے۔ ایٹم بم کی تخلیق پاکستان اور پاکستانی قوم کے ’امکانات‘ کو سمجھنے کے سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے جب ایٹم بم بنانے کا آغاز کیا تو اس وقت وطن عزیز میں بنیادی سائنسز کی تعلیم کا بھی کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں تھا۔ ہمارے پاس ’ماہرین‘ اور ’مالی وسائل‘ دونوں کی کمی تھی مگر اس کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنا کر دکھادیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اگر ہم ایک ہدف طے کرلیں اور حکمران طبقہ اس ہدف کے حصول کے سلسلے میں دس پندرہ سال تک پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھ لے تو بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔

4. پاکستانی قوم تمام تر مخدوش معاشی حالات کے باوجود ہر سال ۳۰۰؍  ارب روپے سے زیادہ کی خیرات کرتی ہے اور ہم اس حوالے سے دنیا کی تین اہم ترین قوموں میں سے ایک ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قوم میں جذبۂ خیر اور جذبۂ تعمیر زندہ ہے جسے مہمیز دے کر قوم سے مزید بڑے بڑے کام کرائے جاسکتے ہیں۔

5. ہماری قومی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر پانچ سات سال کے بعد ایک فوجی آمر ملک و قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اس آمر کو سیاست دانوں کی حماقتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ  عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے مگر پاکستانی قوم بالآخر آمروں کی مزاحمت کرتی ہے۔ چنانچہ قوم نے جنرل ایوب خان کی مزاحمت کی، جنرل محمد ضیاء الحق کی مزاحمت کی اور جنرل پرویز مشرف کی مزاحمت کی۔اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی آمر آٹھ دس سال سے زیادہ ٹک نہیں پایا۔ ورنہ عرب ممالک میں کرنل قذافی ۴۰سال سے قوم پر سوار تھے۔ مصر کا صدر حسنی مبارک ۳۰سال تک مصر پر قابض رہا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم میں جذبۂ حریت کافی مقدار میں موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس جذبٔہ حریت سے بھی ’نئی دنیا کی تعمیر‘ میں بڑی مدد لی جاسکتی ہے۔

6. تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کی بیداری اور تعمیر میں ’تصور دشمن‘ کا بھی ایک کردار ہے۔ اتفاق سے ہمیں بھارت کی صورت میں ایک بڑا اور کم ظرف دشمن فراہم ہے۔ لیکن ہم نے اس دشمن کے تصور سے کوئی خاص ’کام‘ نہیں لیا۔ غور کیا جائے تو اس دشمن کا تصور ہمیں زیادہ نظریاتی بھی بناسکتا ہے اور زیادہ بیدار بھی کرسکتا ہے۔ زیادہ متحرک بھی کرسکتا ہے اور مادی معنوں میں زیادہ ترقی یافتہ بھی کرسکتا ہے___مگر اس کام کے لیے ’قیادت‘ کی ضرورت ہے۔

7. پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظریے نے پاکستان کی تخلیق کی ہے، اس نظریے سے پاکستانی قوم کا ’جذباتی تعلق‘ ختم نہیں ہوا۔ آخر ایک قوم کی حیثیت سے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کے جونظریہ ہمیں پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرکے دے سکتا ہے‘ وہ نظریہ پاکستان کو علاقائی نہیں عالمی طاقت بھی بناسکتا ہے۔  لیکن اس کی دوشرائط ہیں: ایک یہ کہ نظریے کو قومی زندگی میں حقیقی معنوں میں مؤثر یا Functional بنایا جائے۔ تاہم، اس کام کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس میں دو فضیلتیں موجود ہوں۔ ایک تقویٰ کی فضیلت اور دوسری علم کی فضیلت ۔ تاریخ میں مسلمانوں کو جب بھی غلبہ ملا ہے انھی دوفضیلتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ تقویٰ اور علم میں کمال کے بغیر پاکستان کیا پوری امت مسلمہ کا کوئی مستقبل نہیں۔
شاہنواز فاروقی، ترجمان القرآن 
http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1092
.........................................................

ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟
نوعِ انسانی کی خاطر برپا ہونے والی امت کے احوال دیکھ کر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُمتِ مسلمہ آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں کر ہوئی ہے اور اس زبوں حالی سے نکلنے کا کیاکوئی راستہ بھی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات ہمیں جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ جسے ’خیر اُمت‘ کا لقب حاصل ہے اور جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی امین بھی ہے اور جانشین بھی ۔ یہ ایک ایسی امت جسے بجا طور پر سیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہیے تھا، اپنے آپ کو مظلوم و محکوم پاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ  مشرقِ وسطیٰ سے لے کر کشمیر، برما ، فلسطین، بھارت میں اس امت کی بد حالی، مظلومیت اور مفلوجیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ایسی امت جو عددی اعتبار سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہو، جو جغرافیائی اعتبار سے اسٹرے ٹیجک علاقوں میں سکونت پذیر ہو اور جس کی سرزمین قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہو، آخر ایسا کیوں ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ کی حیثیت ایک ایسے بے حس جان دار کی سی ہو گئی ہے، جس پر جو چاہے اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے۔انسانیت کو اندھیروں سے نور کی طرف لے آنے والی امت آج خود پستی کی دلدل میں دھنسی نظر آتی ہے۔
عالمی سطح پر ۵۶سے زیادہ اسلامی ممالک کا وزن پانی پر جھاگ کے ماند بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسلم ممالک خود کو بے وزن محسوس کرتے ہیں۔ ان کی راے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سارے عالمی معاملات جی سیون، جی ففٹین وغیرہ سے منسوب ممالک طے کرتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی آڑ میںبین الاقوامی مسائل کو اپنی اغراض کے مطابق طے کرتے ہیں۔ الغرض اُمتِ مسلمہ پر ذلت اور مسکنت کا دور جاری و ساری ہے اور عذابِ الٰہی کے کوڑے بڑی شدت کے ساتھ اس اُمت پر برس رہے ہیں۔ ایسی حالتِ زار میں اگر یہ وعدہ پیش نظر رکھا جائے: اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹]،   ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘، اگر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے غلبے کی بشارتیں ہیں تو اُمت کیوں کر پستی اور جمود کا شکار ہو کے رہ جائے؟آخر اس پستی کے اسباب کیا ہوئے اور اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟              
اگر غور سے اس مسئلے پر سوچا جائے تو ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں رہتا کہ یہ امت خیر اُمت کی تاویل میں غلطی کر گئی ہے ۔ اہل یہود کی طرح شاید ہم مسلمان بھی مدت سے کچھ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپنی تمام کج فکریوں کے باوجود بھی ہم ہی تا قیامت دنیا کی سیادت پر مامور کر دیے گئے ہیں۔ چوں کہ خیر اُمت ہم ہیں، لہٰذا اقوامِ عالم کی سیادت پر فائز بھی ہمیں ہی کیا گیا ہے۔ اب چاہے کوئی ہماری اقتدا کرے یا نہ کرے ۔ کوئی کہتا ہے کہ غلبے سے مراد سیاسی، تہذیبی یا معاشی غلبہ نہیں بلکہ روحانی غلبہ ہے۔دراصل ’خیر‘ کا لفظ ان تمام کاموں پر محیط ہے، جس سے نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری توانائی ان باتوں میں خرچ ہوتی ہے کہ لائوڈاسپیکر پر اذان دی جائے یا نہیں، قرآن کی تلاوت جائز قرار دی جائے یا نہیں، موبائل پر بنا وضو قرآن پڑھا جائے یا نہیں، گھڑی دائیں ہاتھ میں پہننی جائز ہے یا بائیں ہاتھ میں، ہوائی جہاز میں کس سمت ہو کر نماز پڑھی جائے؟ ہم نئی ٹکنا لوجی کے خریدار ضرور ہیں، مگر اس کی پیداوار میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں دوسری قوموں نے دیانت یا محنت کے نتیجے میں اپنا قائدانہ تفوق برقرار رکھا اور اس سمت میں اپنی پیش رفت جاری رکھی، وہیں ہم خیر کے ان کاموں سے یکسر کٹ کر رہ گئے۔ اس سے بڑی کرب ناک اور اذیت دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے سرکردہ علما کسی سائنسی تحقیق [جسے غیر اقوام نے انجام دیا ہو] کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات میں واضح کیا جا چکا ہے‘‘۔ اس بات سے انکار نہ کرنے کے باوجود لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو وہ اشارے اور ارشادات تب تک نظر کیوں نہیں آتے جب تک کہ غیر اقوام کسی سائنسی تحقیق کو سامنے نہیں لے آتیں۔
آج اُمتِ مسلمہ کے ذہن مفلوج ہو گئے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ صلاحیت سے عاری ہیں، بلکہ شاید اس لیے کہ امت نے ان سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ اُمت ’ توکل‘ میں اس حد تک غلو کی مرتکب ہوئی کہ عقل کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ ’محرک اور نتیجے‘ کے اصول کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس اصول سے آیاتِ آفاق وانفس کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ ’فکرودانش کی خودکشی‘ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی۔ امت اب اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر ’توکل‘ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
نیال فرگوسن نے اپنی کتاب Civilization: The West and the Rest  (۲۰۱۲ء) میں مغربی طاقت کے چھے بنیادی محرکات کو واضح کیا ہے، جو اسے تمام دنیا کی اقوام پر غلبہ اور سیادت بخشتے ہیں۔ان چھے محرکات میں فرگوسن پہلے نمبر پر مقابلے اور مسابقت کو جگہ دیتا اور کہتا ہے کہ یورپ میں مقابلے و مسابقت کی سوچ کے پیدا ہوتے ہی مادی اور فوجی طاقتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا جو یورپی طاقتوں کے غلبے کا سبب بنا۔اس مسابقت سے نہ صرف معیار میں اضافہ ہوا بلکہ مقدار میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا۔ پھر پیداوار اور اس کی کھپت میں انقلابی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔فرگوسن کی اس بات کو ہمارا طرزِفکر یہ کہہ کر خارج کر دیتا ہے کہ: ’’اسلام مقابلے کا نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے‘‘۔ لیکن فرگوسن کے باقی کے پانچ وجوہ(طب، ملکیت، سائنس، محنت اور کھپت) تو ایسی ہیں، جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ ان میں وہ سائنسی میدان میں یورپ کی ترقی کو دوسری بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب یورپ پر تہذیبی زبوں حالی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اُمتِ مسلمہ علوم و فنون کے میدان میں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن جب یورپی قومیں اپنی شکست خوردگی سے بیدار ہونی شروع ہوئیں، انھی ایام میں اُمتِ مسلمہ پر ایسی گہری نیند چھائی کہ اب تک بیدار ہونے کانا م نہیں لیتی۔ دورِ رسالت اوردور خلافت وہ   شان دار اَدوار تھے، جب اُمتِ مسلمہ ایک تعمیری اُمت ہوا کرتی تھی۔علوم و فنون کی افزایش و ترقی میں اس امت کا ایک کلیدی کردار تھا۔ لیکن جوں جوں مسلم ذہنوں پر سُستی اور کاہلی چھاتی گئی، اس بنیادی کام میں ہمارا حصہ گھٹتا گیا اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف علمی ترقی میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، بلکہ علم کے جذب و اجتہاد میں بھی یہ امت بخل سے کام لیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پرمُسلم ہے کہ اس سائنسی ترقی کا ایک اور رخ بھی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جہاں علم کی ترقی نے انسان کو ایٹمی طاقت پر دسترس عطا کی، وہیں وحی سے کٹ کر انسان نے ایٹمی بم بنا کر انسانیت کو ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر دھکیل دیا ہے۔ انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے صرف نت نئی ٹکنالوجی کافی نہیں بلکہ مشفق اور محسن اور آخرت کی جواب دہی سے سرشار انسانوں کی ضرورت ہے، جو اس ٹکنا لوجی کو انسانیت کی بقا کے خاطر استعمال کرسکیں ۔ انسانیت کو اس فساد سے نکال کر امن کی شاہراہ پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی ڈال سکتی ہے۔
اُمتِ مسلمہ ایک بانجھ امت نہیں ہے اور نہ کبھی بانجھ رہی ہے۔ اس امت نے علوم و فنون کے ہر شعبے میں اعلیٰ صلاحیت اور امتیازی حیثیت رکھنے والے افراد کو جنم دیا ہے۔ حسن بصریؒ،   امام بخاریؒ، امام مسلم ؒ ،امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ ، امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ، علّامہ محمداقبالؒ، سیّدقطب شہیدؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ، اس اُمت کے وہ موتی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس امت کے احیا کے لیے کام کیا، بلکہ تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے دل ہمیشہ تڑپتے رہے۔ آج ضرورت ایسے ہی ذہنوں کی ہے، جو اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکا بیڑا اٹھائیں اور اس سمت میں اپنی خدمات انجام دیں۔ عشروں کی محنت سے ہم صرف جامعۃ الازہر ،دارالعلوم دیوبند جیسے گنتی کے چند اعلیٰ اداروں کا قیام عمل میں لاسکے ہیں، جب کہ غیر مسلم قومیں علم اور تحقیق کے ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں، جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ہی تحقیقی اداروں سے ایسے کافرانہ نظریات بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کے دشمن بھی۔ غرض مغربی ممالک علم وتحقیق کو غلبے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو سابقون الاولون میں دیکھنے کو  ملا تھا۔ اس ناکامی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو دو بڑے خانوں میں تبدیل کر دیا: دُنیوی تعلیم اور دینی تعلیم۔ دنیاوی تعلیم کو ہم نے سرے سے ہی وحی سے کاٹ دیا اور دینی تعلیم کو دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے [دینی یا دنیوی] صرف اور صرف ’یک رُخا انسان‘ تیار اور فراہم کرتے ہیں، جن میں بنیادی طور پر منقسم شخصیت ہی پیدا ہوسکتی ہے، اسلام کے انسانِ مطلوب کا تصور محال ہے۔
(شیخ جاوید ایوب)
http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1098
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

پاکستانی معیشت کے ۷۰سال

پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں وجود میں آیا۔ غیر منقسم ہندستان کے جن علاقوں پر یہ مشتمل تھا، وہ پس ماندگی کی نچلی سطح پر تھے، اور اگر اس علاقے میں کوئی قابل ذکر انفراسٹرکچر تھا (مثلاً ریلوے یا نہری نظام) تو وہ یہاں کی عمومی معاشی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روس کی ممکنہ جارحیت کو روکنے اور جنگ آزادی میں انگریز کا ساتھ دینے والوں کو جاگیروں سے نوازنے اور ان کی زمینوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ، اس قدر پس ماندہ علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کا وجود میں آنا اور قائم رہنا بہت سے تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایک بڑا محیرالعقول واقعہ   رہا ہے۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں نے یہ کہہ کر اس مطالبے کی مخالفت ختم کردی کہ چھے ماہ سے زیادہ یہ چل نہیں سکے گا، اور خوار ہو کر واپس آن ملے گا۔ لیکن ان تمام تجزیوں اور پیش گوئیوں کے باوجود، نہ صرف اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں پر اپنی اس نعمت کو قائم رکھا، بلکہ یہ ملک دسمبر ۱۹۷۱ءمیں دو لخت ہونے کے بعد بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

 اس مضمون میں ہم نہایت اختصار سے اس سفر کی رُوداد بیان کریں گے: ہم کہاں کھڑے تھے(جس کا مختصر ذکر ہوگیا)، کہاں پہنچ گئے ہیں، اور مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟

1. پہلا دور :

٭اول، معاشیات میں غیر شعوری طور پر سیاست بھی در آئی ٭دوم، سماجی انصاف کی ضرورتوں کا ہمیں صحیح ادراک نہیں ہو سکا؛ اور ٭ سوم، ترقی کے لیے جو وسائل درکار تھے، ان کے حصول میں ہم اپنے اہم قومی مفادات کا کما حقہ تحفظ نہ کرسکے۔ ہم یہاں پر تینوں خطاؤں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں: ٭ پہلی، چوں کہ مرکزی حکومت بہت طاقت ور تھی اور ملک میں یا تو آئینی بحران رہا ،یا پھر فوج کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت رہی، تو ایک جانب صوبائی خود مختاری کے مسائل نے جنم لیا۔ دوسری جانب عوام کی عدم نمایندگی کی وجہ سے سیاسی بےچینی پیدا ہوئی۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مصنوعی حل نکالے گئے (جیسا کہ ۱۹۵۶ء میں ’ون یونٹ کا قیام‘ اور ۱۹۶۲ء میں ’صدارتی نظام‘ کا اجرا)۔ ایوب خان کی مارشل لا حکومت نے سیاسی صورت گری کے لیے معاشی طاقت کو بے دردی سے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی (مثلاً ’کنونشن مسلم لیگ‘ کا قیام، اقربا پروری اور پسندیدہ اور منظورِ نظر افراد کو پرمٹ، قرضوں، سرمایہ کاری کی اجازت وغیرہ کی فراہمی)‬۔ یوں معاشی ترقی کو سیاست کا گھن لگ گیا اور اس کا عوامی اعتبار کمزور پڑ گیا اور ملک میں اس کے چرچے ماند پڑتے چلے گئے۔

 ٭ دوسری، معاشی ترقی کی اوسط (average) میں بیان کی جانے والی پیمایش عام طور پر اس کی اندرونی تقسیم میں موجود تفاوت کو چھپا دیتی ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کس کو زیادہ فائدہ ہوا اور کون محروم رہ گیا۔ باوجودیکہ اس دور میں مجموعی غربت میں کمی واقع ہوئی، لیکن دوسری طرف آمدنی کی تقسیم میں زبردست بگاڑ پیدا ہوگیا۔ ایک طرف مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان (یعنی موجودہ پاکستان) میں عمومی معاشی تفاوت بڑھا (جس کے بیان میں وہاں کی سیاسی قیادت نے بہت مبالغہ آرائی کرکے دونوں حصوں میں غلط فہمیاں پھیلائیں)۔ دوسری طرف صنعتی ترقی کے ثمرات چند صنعت کار گھرانوں (مشہور ۲۲ خاندان) اور زرعی ترقی کے ثمرات نام وَر جاگیرداروں تک محدود رہ گئے اور مغربی پاکستان کے عوام اور خصوصاً محنت کش اور کسان طبقات میں احساسِ محرومی پھیل گیا۔

٭تیسری، اور شاید سب سے بڑی خطا یہ ہوئی کہ اس ترقی کے حصول میں ہم اپنے قومی مفادات کا پوری طرح تحفظ نہ کر سکے۔ امریکا سے بے جا قربت میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے امریکی بلاک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا مگر ’سرد جنگ‘ میں پھر امریکا کی زیرقیادت ’ناٹو‘ اور  سوویت یونین (اشتراکی روس) کی زیرقیادت ’وارسا پیکٹ‘ جیسی فوجی جتھہ بندیوں نے ہمیں دنیا میں کوئی معروف مقام نہیں دلایا۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ امریکی امداد کے مقاصد اور ہماری امریکا سے توقعات میں ہمیشہ ایک تفاوت رہا ہے۔ مثلاً ہم نے بلاوجہ امریکا کو بھارت کے مقابلے میں اپنا دوست سمجھا، جب کہ حقیقتاً امریکا نے بھارت کو ہم سے زیادہ عزیز رکھا اور مقابلتاً کبھی پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ اس تلخ حقیقت کا سب سے بڑا تجربہ ہمیں اس وقت ہوا، جب ستمبر۱۹۶۵ء کی جنگ میں امریکا نے ہم کو کسی طرح کی نہ صرف مدد دینے سے انکار کردیا بلکہ دفاعی ساز و سامان کی طے شدہ ترسیل بھی روک دی۔ دوسری جانب تلخ ترین بات یہ ہے کہ بھارت پہ التفات یہ کیا گیا کہ اُس کی کمیونسٹ روس سے قربت اور نام نہاد غیر وابستہ ممالک کی تنظیم میں کلیدی کردار کے باوجود مختلف شکلوں میں عنایات جاری رہیں۔ لیکن ہم نے امریکی قربت کو روس کی دعوت کو رد کرکے حاصل کیا تھا اور یوں ہم نے خود اپنی ممکنہ حکمت عملی کو محدود کردیا۔ اس دور کا خاتمہ مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہوگیا، لیکن اس کے اثرات میں ملک دو لخت بھی ہوگیا۔

دوسرا دور:

 تیسرا دور :

اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس مداخلت کی مخالفت اور اس کی مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ یوں ۱۰ سال کا عرصہ اس مزاحمت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں صرف ہوگیا۔ اس صورتِ حال میں ایک دفعہ پھر پاکستان اور امریکا کے درمیان قربت پیداہوگئی، لیکن ازاں بعد اس کا بھی خاتمہ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ماضی میں ہوا تھا۔ لیکن اب کی بار پاکستان اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۹۰ کا عشرہ اندونی اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے میں صرف ہوگیا۔ پاکستان نے اس مزاحمت کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور آج تک کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں مناسب نظم و ضبط کی کمی کے باعث اسلحے کی فراوانی اور منشیات کی اسمگلنگ، معاشی بدنظمی، معاشرتی بگاڑ اور امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی جیسے مسائل کھڑے کردیے۔    چوتھا دور : کاروبار اور سیاست کا اختلاط یہ وہ دور ہے، جو اَب بھی جاری ہے۔ ہم نے عرصے کی طوالت کے علی الرغم اس دور کو اس لیے جاری دور کہا ہے کہ اس کی جوہری صفت آج بھی ہماری معاشی تنظیم میں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں ایک عرصہ پھر فوجی حکومت کے زیراثر گزرا ہے۔

 یہاں ہمیں کسی حد تک فوجی حکومت کے آٹھ برسوں کو الگ سے دیکھنا ہوگا۔ لہٰذا ،ہم اس کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کریں گے:

 ذیلی دور:۱-

اس دور کی درجہ ذیل خصوصیات قابل ذکر ہیں: 

دوسری نواز حکومت (۱۹۹۷ء-۱۹۹۹ء) زبردست عوامی اعتماد کے ساتھ منتخب ہوئی اور اس نے ایک بڑی پارلیمانی حمایت کے ساتھ وہ آئینی ترمیم ختم کردی، جو صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیتی تھی۔ لیکن اس غیرمعمولی تحفظ کے علی الرغم یہ حکومت جلد ہی عدلیہ اور صدر کے ساتھ غیرضروری مسائل میں اُلجھ کر رہ گئی اور اس حکومت کا خاتمہ ڈرامائی انداز میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی برادر ججوں کے ہاتھوں برطرفی اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے استعفا کی شکل میں سامنے آیا۔کچھ عرصے بعد مئی ۱۹۹۸ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی مئی ۱۹۹۸ء ہی میں ایٹمی دھماکے کردیے۔ جس کے جواب میں اُسے مغرب کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقعے پر حکومت نے ایک بڑی غلطی کر کے ملک میں موجود فارن کرنسی اکائونٹس کو غیرضروری طور پر منجمد کردیا، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بُری طرح مجروح ہوا۔بعدازاں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ بھی طرزِحکمرانی کے معاملے میں اختلافات کھڑے ہوگئے اور بالآخر انھوں نےبھی استعفا دے دیا اور حکومت کو نیا آرمی چیف بنانے کا موقع مل گیا، لیکن ان کا نئے چیف جنرل پرویز مشرف سے بھی  نباہ نہ ہوسکا کیونکہ کارگل کی مہم جوئی کے نتیجے میں وزیراعظم نے ان کو برطرف کرنے کی کوشش کی اور فوج نے جوابی قدم اُٹھا کر حکومت کا خاتمہ کردیا۔

اس نئی حکومت نے ابتدا میں اس پروگرام کو شروع کرنے کی کوشش کی جس پر بے نظیر بھٹو حکومت میں اتفاق ہوگیا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ پٹڑی سے اُتر گیا اور بعدازاں ایٹمی دھماکوں پر لگنی والی پابندیوں کی وجہ سے ملک کو قرضوں کی خاطر ازسرِنو پیرس اور لندن کلب جانا پڑا، جس کے لیے  ’فنڈ‘ کا پروگرام لازمی ضرورت تھی۔ لہٰذا ، معطل شدہ (Rescheduling) ادایگیوں کے لیے شرائط رکھی گئیں۔ یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی اور اسی پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا پڑا۔ یہ ہے وہ دور جب قومیائے گئے اداروں میں بڑے پیمانے پر سیاسی مداخلت شروع ہوگئی اور خصوصاً بنکوں اور مالیاتی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر قرضوں کا اجرا شروع ہوگیا۔ ایک طرف سیاسی بنیاد پر دیے گئے قرضوں سے بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا، تو دوسری طرف اس ریاستی سرپرستی سے فیض یاب ہونے والے عناصر سیاسی طور پر مضبوط ہوتے چلے گئے۔   ذیلی دور:۲- فوجی حکومت  (۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۸ء)  یہ دور معاشی اعتبار سے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کا دور ہے۔ ہرچند کہ اس کا آغاز نسبتاً سُست رہا، لیکن نائن الیون کے فوراً بعد بیرونی وسائل کی آمد بڑھ گئی۔ جب تک امریکا کی نظرالتفات قائم رہی (جو مشرف اور صدربش کی دوستی تک موجور رہی) آسانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

اس دور کا آغاز ناخوش گوار حالات میں ہوا تھا، جب مئی ۱۹۹۹ء میں کارگل کی جنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف میں اعتماد کا شدید فقدان پیدا ہوگیا تھا اور حالات بتدریج یوں مرتب ہوئے کہ منتخب جمہوری حکومت کو فوج نے ختم کردیا۔ پہلے تین سال تک یہ فوجی حکومت اس انداز میں چلائی گئی، جیسے ایک کارپوریشن کو چلایا جاتا ہے۔ سیاست کا حکومت میں وہ دخل جو سیلابی شکل میں ہماری قومی زندگی میں شامل ہوگیا تھا، اس کے اثرات بہت حد تک ختم ہوگئے۔ معاشی عمل آہستہ آہستہ مستحکم ہوتا گیا۔ اسی دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آگئی تھیں، جس کی وجہ سے افراط زر بھی کم ہوگیا۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے لگا۔ شرح تبادلہ مستحکم ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح ۶۰ کے عشرے والی رفتار سے بڑھنے لگی۔ اس زمانے میں یوں لگتا تھا کہ ملک تیز رفتار ترقی کرکے شاید دنیا کی اُبھرتی (Emerging) معیشتوں ‬ کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ تین سال کے بعد ۲۰۰۲ء میں فوجی حکومت نے انتخابات کرا کے ایک کنٹرولڈ جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ(ن) کے جبری خلا کو ایک نئی مسلم لیگ (ق) بنا کر پورا کیا گیا جو پیپلز پارٹی کے کچھ اراکینِ پارلیمنٹ کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنی مدت بھی پوری کی۔ لیکن حکومت عملاً فوج ہی کے ہاتھوں میں رہی، کیوں کہ جنرل مشرف نے وعدہ کرنے کے باوجود صدر ہوتے ہوئے وردی نہیں اتاری۔

جوں جوں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کا وقت قریب آتا گیا، نئی صف بندیاں ہونے لگی اور امریکا سے تعلقات میں سرد مہری کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے۔   پھر جس طرح ماضی کی حکومتوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا، خود جنرل مشرف حکومت کے خاتمے کا سبب ان کا یہ خوف بنا کہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان کو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دے کر فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس سے ایک ملاقات میں استعفا طلب کیا، جس سے انھوں نے انکار کردیا اور صدر نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی وکلا کی زبردست تحریک شروع ہوگئی اور سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا اور ان کو اپنے عہدے پر بحال کردیا۔ لیکن اس کے باوجود عدلیہ اور جنرل مشرف کے درمیان ٹکرائو جاری رہا اور صدر انتخاب جیتنے کے بعد بھی پے دَر پے مشکلات کا شکار ہوتے رہے اور بالآخر اگست ۲۰۰۸ء میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ ان واقعات کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء میں ہوا اور ۱۶ ماہ میں یہ واقعات مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوتے رہے۔ یوں عملاً مارچ ۲۰۰۷ء ہی سے حکومت کی توجہ اہم مملکتی اُمور سے ہٹ گئی اور بڑی محنت سے حاصل کیا ہوا سارا معاشی اور سیاسی استحکام ابتری کا شکار ہوگیا۔ عالمی مالیاتی بحران سر اٹھا رہا تھا، لیکن بٹی ہوئی توجہ اور غفلت نے اصلاحی اقدامات اُٹھانے کا موقع نہیں دیا اور معیشت تیزی سے بحران کی طرف لڑھکنے لگی۔ جب اکتوبر ۲۰۰۸ء میں مالیاتی بحران آیا تو وفاق میں پیپلزپارٹی کی نئی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ سابق صدرجنرل مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے سر ڈال دیا۔ 

ذیلی دور:۳ -جمہوریت کا احیا   (۲۰۰۸ء تا حال)

یہ دور جو اَب بھی جاری ہے جنرل مشرف اور ان کے وضع کردہ نظام کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں برسرِاقتدار آنے والی جمہوری قوتوں نے بلا جھجک اس سارے نظام کو آہستہ آہستہ جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ عمل کس قدر مبنی بر انصاف تھا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ۱۰سال کے بعد ملک پھر اسی بے یقینی کا شکار ہوگیا، جس کے خاتمے کی نوید فوجی حکومت نے دی تھی۔ اس طرح پالیسیوں میں ردوبدل اور ترجیحات کو متعین کرنے کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑا۔ اس سب کا گہرا اثر ملک کی معیشت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد پر پڑا اور باہر کی دنیا بھی یہ سمجھنے لگی کہ: ’’پاکستان جیسے ملک میں کبھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا، ان کے ساتھ کام کرنے میں خطرات زیادہ ہیں، جن کا خیال رکھنا چاہیے اور شاید کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔

اس عرصے کا دوسرا دور مسلم لیگ (ن) کی مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

ایک ’پانامہ لیکس ‘اور دوسرا ’ڈان لیکس‘۔ ان مسائل کے دوران میں حکومت کی توجہ اہم قومی اُمور سے ایسے ہی ہٹ گئی ہے، جیسی مشرف حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ہٹ گئی تھی۔ گو معاشی بگاڑ کی وہ صورت نہیں پیدا ہوئی جیساکہ ماضی میں ہوا تھا، لیکن ابتدائی اشارے اسی سمت میں سفر کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر لگتا ہے کہ ہم اسی مشکل صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں ہمیں پھر آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پیش آنے والی ہے۔ تیسرے دور کو ہم نے ’کاروبار اور سیاست کا اختلاط‘ سے منسوب کیا ہے اور اس گفتگو کے اختتام پر ہم اس حوالے سے چند بنیادی گذارشات پیش کریں گے: اول، اگرچہ صدرجنرل ایوب خان، صدر جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے اَدوار میں سرکاری ملازمین کو فراہم کردہ آئینی تحفظات کو ختم کردیا اور پے در پے تین بڑی قسطوں میں بغیر وجہ بتائے اعلیٰ سرکاری افسروں کو ملازمتوں سے نکال باہر کیا گیا، لیکن اس کے باوجود سول سروس میں کچھ دَم خم باقی تھا۔ بعد کے سیاست دانوں نے سول سروس کو اپنے زیراثر لانے کے لیے پسندیدہ افسروں کے گروہ بنا لیے، جس کے نتیجے میں اُن کی وفاداریاں ریاست کے بجاے حکمرانوں کو منتقل ہوگئیں۔

ان حالات میں بعض مؤثر سول سرونٹ بھی سیاست دانوں کے اس مکروہ مفاداتی عمل کا حصہ بننے لگے۔ دوم، پارلیمانی نظام میں بنیادی طور پر حکومت وزیر اعظم اور کابینہ تک محدود ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومتی اراکین پارلیمنٹ، حکومت سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ ان کے اس دباؤ کو کم کرنے کی خاطر ان کے لیے ترقیاتی اسکیموں کا اجرا شروع کیا گیا۔ ان کے علاقوں میں انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں ( SHO‬ , SSP‪,‬ DCO) کی تعیناتی ان کی خواہش اور منظوری سے ہونے لگی۔ سوم، سیاست دانوں کی پبلک سیکڑ کی کارپوریشنز اور خاص طور پر بنکوں اور مالیاتی اداروں میں زبردست مداخلت شروع ہوگئی اور ان میں نہ صرف تعیناتیاں سیاسی وابستگی اور سرپرستی کی بنیاد پر ہونے لگیں، بلکہ ان کے کاروبار کے محرکات بھی سیاسی مقاصد کے تابع ہوگئے۔ مثلاً قرضوں کا اجرا اور ان اداروں کے بنے مال کی تقسیم (اسٹیل ملز کی پیداوار کی فروخت یا گیس اور بجلی کی فراہمی)، سب کچھ سیاست کی نذر ہونے لگا۔  آخری بات یہ کہ، کاروبار اور سیاست کا اس بڑے پیمانے پر اختلاط ماضی میں نظر نہیں آتا۔ فوج اور کسی حد تک عدلیہ کو چھوڑ کر (گو ان کے ساتھ بھی طرزِ حکمرانی کے مسائل موجود ہیں اور ان پر تفصیل سے گفتگو بھی ہونی چاہیے)، سیاست، قومی ادارے اور کاروبار مربوط ہوگئے اور عوام دیکھتے رہ گئے۔ حکومت تو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہے، لیکن اگر یہ اُن ہاتھوں میں چلی جائے، جن سے عوام کو تحفظ چاہیے تو پھر دادرسی کی کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور مایوسیاں پھیلنے لگتی ہیں اور لوگ تبدیلی کے لیے ایسے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں، جو سیاسی عمل سے باہر ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالا مدوجزر کے باوجود پاکستان کی معیشت آگے کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ ان حادثات نے ترقی کی رفتار اور پالیسی کی یکسوئی کو تو ضرور متاثر کیا ہے، لیکن اس کی سمت کو نہیں بدلا۔   فی الحقیقت اس میں کمال ہمارے لوگوں کا ہے، جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور محنت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ 

اختتامیہ

 پاکستان کی معیشت مقابلتاً اُس وقت سے کہیں مضبوط اور مستحکم ہے، جب یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ اس معیشت کا جوہرِ خاص اس کی بے پناہ انعطاف پذیری (‬resilience)ہے۔ آج ہماری معیشت ان پابندیوں سے آزاد ہے، جو ایک حکومتی کنٹرول میں چلنے والی معیشتوں کا خاصّہ ہوتا ہے۔ نجی شعبے کو ہر طرح کی آزادی ہے، بڑے منصوبوں میں وہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور آزاد ریگولیٹری اداروں کے ذریعے ان کے معاملات حکومتی اثرات و مداخلت سے محفوظ ہیں۔ بیرونی تجارت پر کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ زرمبادلہ ہی پر وہ پابندیاں ہیں، جو پانچ عشروں تک ہم پر مسلط رہی ہیں۔ اس مختصر سے جائزے میں قارئین کو یہ اندازہ بھی ہوگیا ہوگا کہ اتنے بڑے حادثات سے گزر کر بھی پاکستان کی معیشت نہ صرف قائم ہے اور ملک کی سلامتی کی ضرورتوں کو پورا کررہی ہے، بلکہ اس کی ترقی کی فطری صلاحیت بھی لامحدود ہے، کیوں کہ یہاں پر حقیقی ترقی کی اصل ضرورت، یعنی انسانی وسائل اور قدرتی وسائل، دونوں موجود ہیں۔ ہمیں جس بات نے ضعف اور صدمہ پہنچایا ہے، وہ رہنماؤں کی کوتاہ نظری اور بے اعتدالی کے ساتھ دُوراندیشی سے تہی دامنی بھی ہے۔ یہ ملک اس قابل ہے کہ اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کم از کم اس نمبر پر آئے، جو اس کی آبادی کے لحاظ سے اس کا حق بنتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک ضرورت ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات پر غیرمتزلزل ایمان اور مستقل مزاجی سے ایک سیدھی سمت میں سُبک رفتار سفر۔ اگر ہم راستے بدلتے رہے تو اوپر بیان کردہ دائرے کا سفر جاری رہے گا۔

تمام مضامین بشکریہ - ترجمان القرآن : اگست 2017ء
---------------------------

نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید
Reconstruction of Religious Thought in Islam-  http://goo.gl/lqxYuw

 عرصہ پلاننگ (۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۱ء) اس دور میں پاکستان نے زبردست معاشی ترقی حاصل کی اور یہ بھی قریب تھا کہ ہم پس ماندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر تیز رفتار ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوجاتے۔ پانچ سالہ منصوبہ بندی کا سلسلہ جاری ہوا اور ایک مضبوط مرکزی حکومت نے سارے معاشی عمل کو قوانین، ضابطوں اور منظوریوں کے زیر اثر رکھا۔  بلاشبہہ اس دور میں پاکستان کی معیشت نے بڑی تیز رفتار ترقی کی، جس کی اوسط شرح ۶فی صد سے زیادہ رہی۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھا، زراعت میں سبز انقلاب آیا، شہروں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، غربت میں کمی واقع ہوئی اور تعلیم اور صحت ایسے سماجی شعبوں میں بھی گراںقدر کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) جس کا اندا زہ ۱۹۴۷ء میں ۲۴ ؍ارب روپے تھا، وہ بڑھ کر ۵۵ ؍ارب ہوگئی، جب کہ فی کس آمدنی ۳۱۱ روپے سے بڑھ کر ۴۵۰  روپے ہوگئی۔ بدقسمتی سے اس دور میں ہم سے کم از کم تین بڑی خطائیں بھی سرزد ہوئیں:


سوشلزم اور قومیانے کا عمل (۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۷ء) اس دور میں معیشت کی تنظیم کا نظریہ یکسر بدل گیا۔ یہ پہلے دور کی غلطیوں اور خطاؤں کا ردعمل تھا۔ تمام بڑی صنعتوں کو اور سارے بنکنگ اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ نجی شعبے کا معاشی عمل میں کوئی قابل قدر کردار باقی نہ رہا۔ آجر و مزدور کے تعلقات میں زبردست ضد (antagonism) پیدا ہوگئی، اور دوسری جانب زرعی اصلاحات کی وجہ سے عام محنت کش کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان بھی حالات کشیدہ ہوگئے۔ لیکن ان اقدامات سے کسی حد تک معاشرے میں سیاسی حقوق سے آگہی اور ان کے جدوجہد کے راستے بھی کھل گئے۔ گو اس دور میں سرکاری شعبے میں بنیادی صنعتوں کا جال پھیلایا گیا (مثلاً اسٹیل ملز،نیوکلر پاور، بنیادی کیمیکلز اور مصنوعی دھاگا وغیرہ)، لیکن ان کے ثمرات فوری طور پر قومی اور سماجی زندگی میں سامنے نہیں آئے۔ معاشی ترقی کی رفتار جو گذشتہ دور میں حاصل ہوئی تھی، وہ بھی کم ہوکر رہ گئی۔ ۶ فی صد کے مقابلے میں، اس دور میں   یہ رفتار ۴ فی صد سے بھی کم سطح پر آرہی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے کہنے پر شرح تبادلہ میں یکمشت ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ devaluation‪)‬) کردیا، جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا اور مہنگائی کا سیلاب آگیا، جو عام آدمی کے لیے بہت تکلیف کا باعث بنا۔ یوں باوجود اس دور میں تقسیم آمدنی میں بہتری لانے کی کوششوں کے، غربت میں قابل قدرکمی واقع نہ ہوسکی۔  شرح تبادلہ میں اس بڑی تبدیلی سے درآمدات کو زبردست فائدہ ہوا اور ملک کا بیرونی ادایگیوں کا توازن (Balance  of Payments)   ۱۹۵۱ءکے بعد دوبارہ منافع میں بدل گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دسمبر ۱۹۷۱ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت نے اقتدار سنبھالا، تو ملک  نہ صرف دولخت ہونے کے صدمات سے نبردآزما تھا، بلکہ سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کی قربت اور ان کی امداد سے حاصل کی ہوئی معاشی ترقی سے منسلک گمبھیر مسائل کا بھی سامنا تھا۔ لہٰذا، ایک لحاظ سے شرح تبادلہ میں مناسب اضافہ ضروری تھا، تاکہ درآمدات کو برآمدات پر بے جا ترجیح دینے کا عمل ختم ہو۔ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ اس دور کی غلطیوں کا ازالہ بھی کیا جائے، خصوصاً آمدنی اور دولت کے ارتکاز کو توڑا جائے۔ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے انقلابی اقدامات اور سوشلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں   مغربی ذرائع سے بیرونی وسائل کی آمد بند ہوگئی۔ لیکن اس کمی کا توڑ کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے مسلم ممالک سے تعاون کو زبردست فروغ دیا۔ فروری۱۹۷۴ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تعاون نے بیرونی وسائل کے حصول میں آسانی پیدا کردی۔ خصوصاً اس دور میں پاکستان کی افرادی قوت کی مشرق وسطیٰ میں درآمد کے راستے کھل گئے اور ان کی بھیجی ہوئی ترسیلات (Remittances)‬ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
  نجی و سرکاری شعبوں کا اشتراک  (۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۸ء) اس دور میں ابتدائی طور پر یہ کوشش کی گئی کہ دوسرے دور کے وہ انقلابی اقدامات، جن سے بڑی حد تک معاشی نظام تتر بتر ہوگیا تھا، اس کی تلافی کی جاسکے۔ اس مقصد کے تحت ’عقیلی کمیٹی‘ بنائی گئی، جس نے بلا کم و کاست تجویز کیا کہ: ’’قومیائے گئے اثاثوں کو اصلی مالکان کو واپس کردیا جائے‘‘ اور کچھ اثاثے واپس بھی کردیے گئے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بہت جلد حکمرانوں کو احساس ہوگیا، یا پھر احساس دلایا گیا کہ سرکاری شعبے میں اتنی عظیم الشان معاشی طاقت کو نج کاری یا پرانے مالکان کو واپس کرنے کے بجاے، موجودہ نظام کو خوش اسلوبی سے چلایا جائے، تاکہ   سیاسی سرپرستی (political patronage) اور ’مثبت‘ سیاسی نتائج کے حصول کے لیے حکومت کے پاس دینے کے لیے ترغیبات موجود ہوں ۔ لہٰذا، جلد ہی ایک نظام وضع کرلیا گیا، جس کے تحت سرکاری کارپوریشنوں میں تعینات مینیجرز کے لیے علیحدہ نام نہاد مینجمنٹ اسکیلز بنادیے گئے اور   ان کی کارکردگی کے جانچنے کے لیے پہلے سے موجود ایک ادارے کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یوں اس عوامی حکومت کے بنائے ہوئے نظام کو ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ کے مصداق فوجی حکومت کی حمایت حاصل ہوگئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، گو اس کا حجم بہت کم ہوگیا ہے۔ اس دور میں سب سے بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روسی افواج، افغانستان میں کھلے عام ،پوری قوت سے گھس آئیں۔

 سیاسی عدم استحکام  (۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء ) اس دور کا آغاز ۷جولائی ۱۹۷۷ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت کے تحت، پیپلزپارٹی کے بنے سیاسی نظام کے ڈرامائی خاتمے کے بعد ہوا۔ اس دور میں مسلسل سیاسی کشیدگی رہی، جس کا ایک بڑا سبب اپریل ۱۹۷۹ء میں ایک مقدمۂ قتل میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا بھی تھا۔ دوسری جانب نسبتاً نوعمر قیادت کی ناتجربہ کاری سے پیدا ہونے والے مسائل تھے۔ اس کے ساتھ دنیا میں تاریخی تبدیلیاں رُونما ہوگئیں۔ سودیت یونین کا دسمبر ۱۹۹۱ء میں خاتمہ ہوگیا، برلن کی دیوار گرگئی، یورپ متحد ہوگیا اور امریکا دنیا میں واحد سوپر پاور بن کر اُبھرا۔  اس کے ساتھ ہی ایک نیا معاشی نظام وجود میں آنے لگا، جس کو ’عالم گیریت‘ سے منسوب کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر نئے نظام میں سرمایہ بغیر روک ٹوک کے ساری دنیا میں گردش کرنے لگا۔ شرح سود کھلی مارکیٹ میں طے ہونے لگی۔ سرکاری سطح پر امداد کی فراہمی کا عمل تیزی سے ختم ہونے لگا۔ دنیا میں نج کاری، آزاد معیشت، حکومتی کنٹرول کا خاتمہ، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے منڈیوں کو کھولنا اور تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ساری دنیا کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی عام ہوگئی۔ مزید افتاد یہ آن پڑی کہ افغانستان سے روس کے اخراج کے ساتھ ہی امریکا بھی علاقے سے نکل گیا اور پاکستان کی امداد کا سلسلہ بھی رک گیا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کی جانب سے’پریسلر ترمیم‘ کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے ایک نئے امتیازی دور کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کی معطلی اور CTBT پر دستخط کے مطالبات بھی شامل ہوگئے۔  اس دور میں ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام رہا۔ ۱۰ سال کے عرصے میں اوسطاً ۳۰ ماہ کی مدت پر مشتمل پے در پے چار حکومتیں بنیں، جو ناکام ہوتی رہیں اور بالآخر اکتوبر۱۹۹۹ء میں ملک میں پھر مارشل لا لگا دیا گیا، جو تقریباً ۱۰ سال تک مختلف صورتوں میں سیاسی نظام کی پشت پہ کام کرتا رہا۔ اس دوران معاشی پالیسی کی سمت اور اس کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور ترقی کی شرح ۴ فی صد سے بھی کم ہوگئی۔ بعض تجزیہ نگار اس عرصے کو ’معاشی ترقی کا گم شدہ عشرہ‘ بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس دور میں معاشی ترقی کا عمل معکوسیت کا شکار ہوگیا۔ افراطِ زر کا دباؤ بڑھ گیا اور ملک کو پہلی دفعہ دیوالیہ ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے۔
(ا) نج کاری کا اجرا؛

اس دور کے پہلے حصے میں حکومت پیپلز پارٹی نے بنائی اور اپنی مدت بھی پوری کی، تاہم اس دوران ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل بھی قرار دے دیا۔ پیپلز پارٹی اپنا صدر بھی لانے میں کامیاب ہوگئی اور آرمی چیف کو توسیع بھی دے دی۔ لیکن یہ دور معاشی ترقی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا، جس کی ایک وجہ تو شدید عالمی مالیاتی بحران تھا، جس کے ساتھ تیل کی عالمی قیمت ۱۵۰ ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور شرح تبادلہ میں بھی بڑا اضافہ ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا نے پاکستان پر زور ڈال کر اسے آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل کرادیا، جس نے شرح سود میں اضافہ کرنے کی سابقہ شرط لگادی، جس کے ساتھ قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ یوں وہ معاشی استحکام، جو فوجی حکومت کے دور میں نظر آتا تھا، پھر ختم ہوگیا۔ نئی حکومت چوںکہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بہیمانہ قتل کے بعد وجود میں آئی تھی، لہٰذا اتنے بڑے المیے اور حادثے کے نتیجے میں پارٹی کی قیادت نسبتاً غیر تجربہ کار ہاتھوں میں آگئی۔
۱۴ سال کے بعد دائرے کا سفر اسی جگہ پہنچ گیا، جہاں سے سے آغاز ہوا تھا۔ اپنی پیش رو حکومت کے مقابلے میں یہ حکومت بڑی قیادت اور واضح مینڈیٹ کی حامل تھی اور اس نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے کام کو شروع کیا، جو بہت جلد ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام میں بدل گیا، جو تین برسوں پر محیط تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ پروگرام جمہوری حکومت کے دور میں کامیاب ہوگیا اور معیشت میں استحکام واپس آگیا۔ افراطِ زر میں کمی ہوئی، شرح نمو میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگا اور سال ۲۰۱۷ء میں اس کی شرح ۵ء۳ فی صد تک پہنچ گئی، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ CPEC کی شکل میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے معاشی و ترقیاتی پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا، اور توانائی اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے تعمیروترقی کی جانب گامزن ہوئے۔

(ب) معاشی میدان میں حکومتی منظوریوں اور کنٹرول کی تمام صورتوں کا خاتمہ یا ان میں بڑی کمی اور آسانیاں؛

(ج) نجی شعبے کی بتدریج معاشی عمل میں شمولیت اور بالخصوص ان کے لیے نئے شعبوں، مثلاً بجلی کی پیداوار میں سرکایہ کاری کی اجازت؛

(د) نئے ریگولیٹری اداروں کا قیام (نیپرا اور پی ٹی اے وغیرہ)؛ مرکزی بنک کو خودمختاری دینے کا آغاز؛ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی)کا قیام اور کیپٹیل مارکیٹ کی وسعت شامل ہیں۔

اس عرصے میں بیرونی وسائل کی کمیابی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی، لہٰذا ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے پاس حکومت ِ پاکستان کا جانا ناگزیر ہوگیا۔ اس کی پہلی درخواست اور شرائط کی منظوری خود  جنرل محمد ضیاء الحق کی بنائی ہوئی عبوری حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اکتوبر۱۹۸۸ء میں دے دی تھی۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد بے نظیر حکومت (۹۰-۱۹۸۸ء) نے کیا۔ بعدازاں ۲۰ماہ بعد جب بے نظیر کی حکومت ختم کی گئی تو محمدنوازشریف کی پہلی حکومت (۹۳-۱۹۹۰ء) نے اس پروگرام پر عمل درآمد روک دیا۔ اس کے بعد نواز حکومت نے معاشی میدان میں ایسے فیصلے کیے جو مقبول ضرور تھے، لیکن ان کی معاشی حکمت مشتبہ تھی۔لہٰذا، کچھ ہی عرصے میں معاشی اشاریوں میں   عدم توازن پیدا ہونا شروع ہوگیا، خصوصاً بیرونی ادایگیوں کا توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے۔ اس فضا میں اپریل ۱۹۹۳ء کے شروع میں ایک درخواست عالمی مالیاتی فنڈکو دی گئی۔  دوسری طرف نوازحکومت، صدر مملکت سے محاذ آرائی میں اُلجھ گئی، جو بالآخر ۱۸؍اپریل ۱۹۹۳ء کو ان کی معزولی کا باعث بن گئی۔ عبوری وزیراعظم (۱۸؍اپریل-۲۶مئی ۱۹۹۳ء)      بلخ شیرمزاری کے وزیرخزانہ سردار فاروق لغاری نے ’فنڈ‘ سے ایک نئے پروگرام کے لیے ابتدائی مذاکرات شروع کیے، گو وہ نامکمل رہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے نوازحکومت کو بحال کردیا۔

اس کے بعد بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشیدگی نہ صرف جاری رہی بلکہ مزید بگڑ گئی۔ اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحیدکاکڑ نے دونوں کو استعفا دینے پر  راضی کرلیا اور ۱۹۹۳ء میں نئے انتخابات کا راستہ کھل گیا۔ عبوری حکومت میں وزارتِ عظمیٰ (۱۸جولائی-۱۹؍اکتوبر ۱۹۹۳ء) کے لیے ڈاکٹر معین قریشی صاحب کو درآمد کیا گیا، جن کی حکومت کی عبوری نوعیت کے باوجود فنڈ کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلیے اور ایک نیا پروگرام شروع کر دیا۔ ابتدا میں بے نظیر کی دوسری حکومت (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) نے اس پروگرام کو اپنا لیا، لیکن جلد ان سخت مشکل اصلاحات کو جاری نہ رکھ سکی۔ ایک سال بعد ہی یہ پروگرام معطل ہوگیا۔   دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی تیزی سے بڑھنے لگی اور پنجاب میں مرکز کی اتحادی حکومت کے ساتھ بھی زبردست اختلافات کھڑے ہوگئے۔ ان مسائل نے حکومت کو کمزور کردیا اور آہستہ آہستہ وہ خود اپنے بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں معزولی کا شکار ہوگئی۔ جب حکومت کا خاتمہ ہوا اس وقت نئے وزیرخزانہ نویدقمر کے ساتھ ’فنڈ‘ کے مشن کے مذاکرات نئے پروگرام کے لیے کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔



بعدا زاں آصف علی زرداری صاحب کے صدر بنتے ہی طاقت کے کئی مراکز وجود میں آگئے اور پالیسی سازی کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ حاصل نہ رہی، بلکہ اس میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ ۲۰۱۰ء میں ملک ایک بڑے سیلاب سے دوچار ہوگیا، جس سے جانی اور مالی نقصانات اُٹھانے پڑے۔ ایک اور مسئلہ جس میں حکومت اُلجھی رہی، وہ عدلیہ سے کشیدہ تعلقات تھے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ یہ عرصہ ایک اور لحاظ سے سخت مشکلات کا شکار رہا، جو امریکا سے ہمارے تعلقات سے متعلق ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ ہی امریکا میں ری پبلکن حکومت ختم ہوگئی اور بارک اوباما صدر  بن گئے۔ گو وہ عراق جنگ کے خلاف تھے، لیکن اس الزام سے بچنے کے لیے کہ ڈیموکریٹک لیڈر دفاع کے معاملے میں نرم رویہ رکھتے ہیں، انھوں نے بغیر کسی مؤثر دلیل کے افغانستان میں امریکا کی جنگ کو ’مبنی برانصاف‘ قرار دیا اور وہاں فوج میں اضافے کی منظوری دے دی۔ لیکن ساتھ ہی اس کے قیام کی مدت بھی متعین کردی، جو ۲۰۱۴ء تک تھی۔

اس وجہ سے امریکا اور اتحادیوں کی فوج کی تعداد ۱۳ہزار تک پہنچ گئی۔  صدرجنرل مشرف کے منظر سے ہٹتے ہی نئی حکومت اور امریکا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا، جو تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستاں کے کُلی مفاد میں نہیں تھا۔ پھر کچھ تلخ واقعات بھی اسی پس منظر میں پیش آئے۔ ان میں چار بہت اہمیت کے حامل ہیں: بلیک واٹر سے وابستہ اہل کاروں کی بڑے پیمانے پر پاکستان اور خصوصاً اسلام آباد میں مبینہ آمد؛ اسامہ کی ایبٹ آباد میں مبینہ موجودگی اور اس کو ہلاک کرنے کے لیے امریکا کی یک طرفہ کارروائی ؛ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے لاہور میں دو افراد کو قتل کردیا اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اس کی رہائی کے مطالبے سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے؛ اور، سب سے   بڑا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوگیا، جب امریکی فوج نے سلالہ میں پاکستانی چوکی پر حملہ کرکے متعدد پاکستانی فوجیوں کو شہید کردیا۔ ان وجوہ سے حکومت بہت کمزور پڑگئی اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے ساتھ اس کا پروگرام بھی ناکام ہو کر بند ہوگیا اور معیشت بے شمار مسائل کا شکار ہوگئی، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ملک کو ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کے قریب لے گئی۔ مزید ابتری وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے حکم پر نااہلی اور ایک خوفناک گردشی قرضے کی وجہ سے توانائی کے بحران نے پیدا کردی۔

تاہم، مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت بھی وقفے وقفے سے حادثات کا شکار ہوتی رہی۔ لیکن تیسرے سال، یعنی ۲۰۱۶ء میں پے دَر پے دو حادثے ایسے پیش آئے، جنھوں نے حکومت کو مفلوج کردیا:

وقار مسعود خاں
http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1091

....................................

پاکستان: ماضی اور مستقبل کے امکانات

غمِ آرزو کا حسرتؔ ، سبب اور کیا بتائوں
میری ہمتوں کی پستی ، مرے شوق کی بلندی
پاکستان کی ۷۰سالہ تاریخ حسرت موہانی کے اس شعر کی شرح کہی جاسکتی ہے۔ نصف صدی سے زائد اس عرصے کو ہم اِن عنوانات کے ذیل میں دیکھ سکتے ہیں:

۱- سیاست اور سیاست دان:
۲۰ویں صدی کے ۴۰ کے عشرے میں، جب برصغیر ہند کے ۱۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کی اکثریت نہایت جذباتی انداز میں برصغیر کی تقسیم اور خلافت ِ راشدہ کے نمونے کی ایک مسلم ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے نہایت جوش و خروش سے حصہ لے رہی تھی، بعض گوشوں سے یہ ضعیف آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں کہ یہ تحریک درست نہیں۔ ان میں  بعض مذہبی طبقے بھی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت اس نصب العین کو پورا کرنے کی اہل نہیں۔ لیکن اکثریت نے ان کے تحفظات کو رَد کر دیا اور ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو برصغیر تقسیم ہوگیا۔ ’پاکستان‘ کے نام سے ایک ’اسلامی‘ (مسلم) ریاست وجود میں آگئی۔
لیکن اس تحریک کے قائدین کی اکثریت، اسلامی اصول یا سیاست و ریاست سے کس قدر واقفیت رکھتی تھی؟ ان قائدین کی اپنی ذاتی زندگی میں اسلامی ثقافت اور سماجی اقدار کی کیفیت کیا تھی؟ فکری طور پر وہ اسلام کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اصولوں سے کس قدرواقفیت رکھتے تھے؟ یہ سوالات قابلِ توجہ ہیں۔

۲- سرزمینِ      بـے آئین :
 اس میں شک نہیں کہ اس نوزائیدہ مملکت کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا، لیکن آئین سازی کے لیے ایک چھوٹی سی کمیٹی ہی کافی تھی۔ میری یادداشت کے مطابق اس کمیٹی میں مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر محمدحمیداللہ اور بعض دوسرے لوگ شامل تھے۔۱ڈاکٹر حمیداللہ اس کی کارکردگی سے مایوس ہوکر یورپ لوٹ گئے۔ آخر ’قراردادِ مقاصد‘   منظور ہوئی، جس میں پاکستان کو اسلام کی راہ پر ڈالنے کا عزم تھا (پروفیسر خورشیداحمد کی کتاب: پارلیمنٹ، دستو ر اور عدلیہ  کا مطالعہ اس سلسلے میں نہایت مفید ہوگا)۔
دنیا کے دساتیر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دستور سازی کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا: مقنّنہ ایک ایوانی ہو یا دو ایوانی، صدارتی /پارلیمانی (وزیراعظم)، ایوان کی مدتِ انتخاب، حلقے، حقوق اور ذمہ داریاں ___ ان سب معاملات پر دنیا کے دساتیر سے رہ نمائی مل سکتی تھی، مگر اس دستور سازی کے لیے جماعت اسلامی اور بعض جماعتوں کو ایک مہم چلانی پڑی (’اپنا مقصد اپنی منزل، اسلامی دستور‘)۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ایک سال میں دستور مرتب کر کے نافذ کرلیا،۲مگر ہم ۹سال تک بلادستور ۱۹۳۵ء کے برطانوی قانون کے تحت حکومت چلاتے رہے۔ پہلا دستور ۱۹۵۶ء، پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۶۲ء اور پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۷۳ء میں نیا دستور بنا اور نافذہوا۔

۳- نظریاتی انحراف :
کہا جاتا ہے کہ ۲۰ویں صدی کی نصف دہائی کے قریب دنیا کے نقشے پر دو’نظریاتی ریاستیں‘ وجود میں آئیں۔۳  ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل۔ پاکستان پورے برصغیر ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کی خواہش اور جدوجہد سے وجود میں آیا تھا۔ لیکن قائد کا یہ فرمان تاریخ کا حصہ ہے کہ: ہندستان میں مقیم مسلمان اب ہندستان کے وفادار شہری بن کر رہیں ۔ یہ ہندستان کے مسلم کُش ہندو مسلم فسادات کے دوران کہا گیا تھا۔ دہلی میں دی گئی  اس ’اذان‘ کا مقابلہ اسرائیل کی قیادت کی اس پالیسی سے کیجیے، جس کے مطابق دنیا میں کہیں بھی آباد یہودی، ہر وقت ریاست ِ اسرائیل کا شہری بن سکتا ہے۔ اس پر اسرائیل کی شہریت اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔۴

۴- غلامی کا  آغاز :
قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دنیا کی دو بڑی طاقتوں اشتراکی روس اور امریکا کی طرف سے ہند اور پاکستان کے سربراہوں کودوستانہ دوروں کی دعوت دی گئی۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کی دعوت کو قبول کیا اور وہاں کا خاصا طویل دورہ کیا۔ کئی معاہدے ہوئے اور اس طرح دوستی کی جگہ جو طوقِ غلامی، امداد (US Aid) کی شکل میں امریکا سے آکر پاکستان کی زینت بنا، اس کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی گئی۔ اس کے اثرات و شواہد بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ روزمرہ کی خبروں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے (ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکا کو حوالگی، اسامہ بن لادن کو پاکستان میں دراندازی کرکے ہلاک کر دینا، افغانستان کی بربادی، ڈرون حملوں کا تسلسل، ریمنڈ ڈیوس کی ’فاتحانہ‘ رہائی، پاکستان کی اعلیٰ قیادت پر اس کی طعن و تشنیع)۔ امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جو وظائف دیے جاتےہیں ان میں تعلیم سے فارغ اکثریت امریکا ہی کے مفاد میں کام کرتی نظر آتی ہے۔

۵- مذہبی قیادت :
چوں کہ پاکستان کا قیام ایک اسلامی ریاست کے قیام کے وعدے پر کیا گیا تھا، اس لیے فطری طور پر یہاں اسلامی جماعتوں کے اثرواقتدار کو فروغ ہونا چاہیے تھا۔ اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور متحرک جماعت اسلامی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری مذہبی و سیاسی جماعتیں جو میدان میں آئیں وہ جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی سیاست (انتخابی سیاست) میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کراچی اور پنجاب کے بعض حلقے اس کے زیراثر آئے، یہاں تک کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں ’شوکت ِ اسلام‘ کے مظاہروں سے یہ گمان ہوا کہ یہ اب اقتدار کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے، مگر نتیجہ   اس کے برعکس تھا۔ کارکنان پُراُمید تھے کہ اگر انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے تو ایک دن جماعت اسلامی ضرور اقتدار سنبھال کر معاشرے کی اسلامی تشکیل و تعمیر کا فریضہ انجام دے گی، مگر اس کے بعد حالات زیادہ ہی نامساعد ہوتے گئے۔ دوسری طرف جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان کبھی قابلِ ذکر اراکین پارلیمان میں نہ بھیج سکیں۔
مذہبی جماعتوں کے انتخابی نتائج سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی جڑوں میں اسلام کا کتنا اثر موجود ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مذہبی قیادتیں اپنے وژن میں کس قدر معاشرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔

۶- ثقافت :
 کسی قوم کی قدر کی پیمایش کا ایک طریقہ اس کی ثقافت، رسوم و رواج ، رہن سہن اور آدابِ زندگی کی جانچ پڑتال بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مسلمانوں میں امیر، غریب اور متوسط طبقے موجود تھے، لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران میں اس تفاوت میں اضافہ ہی نظر آیا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات، آرایش، لباس اور خوراک اور طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ لباس، مکانات اور سواریوں میں اور طرزِ زندگی میں تکلف، نمایش اور دکھاوا عروج پر ہیں۔ اسلامی مساوات اور سادگی جیسی قدریں، جو دینِ اسلام کا طرئہ امتیاز تھی، بڑی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبوں میں صرف ’شادی ہال‘ کے کرائے لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ کھانوں کا اسراف اور ضیاع ایک الگ مسئلہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علما اور اَئمہ کرام ، خود بھی سادگی کو اپنائیں اور اس کی مؤثر تلقین بھی کریں۔
اعلیٰ قیادت کس طرح خود کو نچلے معاشی طبقے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کرشمے دکھا سکتی ہے، اس کی ایک مثال مشرقِ بعید کی ایک چھوٹی سی ریاست ویت نام میں نظر آئی۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی/ اقتصادی قوت امریکا نے جب ویت نام پر حملہ کیا تو امریکا کے پاس تو جدید جنگی ٹکنالوجی تھی، جس سے ویت نام محروم تھا، مگر اس کے سربراہ ہوچی منہ ، جو ٹائر کی تراشی ہوئی چپل اور سفید پاجامے میں ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارتے تھے، امریکا کے آگے سر نگوں نہ ہوئے۔ جنگ ہوئی اور آخر امریکا کو اپنی تاریخ کی پہلی (اب تک کی آخری) شکست کھاکر ویت نام سے ذلّت کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔
ہمارے ٹی وی پروگرام اور اشتہارات میں جس بے محابانہ انداز میں عورتوں اور پُرتعیش زندگی کو دکھایا جاتا ہے، وہاں عریانی کے فروغ اور اس کی اجازت بھی ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

۷- تعلیم :
انگریزوں کے زیرتسلط برصغیر میں ابتدائی تعلیم (چوتھی جماعت) تقریباً مفت تھی۔ متوسط اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی نہایت سادگی سے ارزاں تعلیمی نظام رائج تھا۔ یہ کیفیت پاکستان کے بننے کے بعد بھی جاری رہی۔ لیکن رفتہ رفتہ حکومت، تعلیم کی ذمہ داری سے دست کش ہوتی نظر آئی اور نجی تعلیمی اداروں کا فروغ شروع ہوا۔ آج پاکستان میں تعلیم باقاعدہ نفع بخش اور نقدآور کاروبار بن چکی ہے۔ ابتدائی (پرائمری) اسکولوں میں بچوں کے بستے، فضول، بے کار، نہایت گراں اسٹیشنری اور کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کا اُٹھانا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بیش تر علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے (اسکول /کالج) تقریباً خالی یا زبوں حالی کا شکار ہیں۔ مؤثر نظامِ معائنہ نہ ہونے سے اساتذہ، سرکاری اداروں سے مشاہرے تو وصول کرتے ہیں، لیکن اپنے نجی تعلیمی اداروں یا ٹیوشن سنٹرز میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف ’انگلش میڈیم‘ اور دوسرے نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ ابتدائی جماعتوں کے بچوں کی فیس ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے۔ غریب کے لیے اچھی/معیاری تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں درسی کتابیں زیادہ تر اوکسفرڈ یا ایسے ہی دوسرے اداروں کی شائع کردہ استعمال ہوتی ہیں۔ ان سے ثقافت، زبان اور ذہنیت کی ساخت کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، کم ہی لوگوں کی اس پر نظر ہے۔
وزارتِ تعلیم اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے: ایک عرصے سے گریجویشن کی سطح کے تعلیمی نصاب میں ’اسلامیات‘ ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل تھا (جامعہ کراچی نے اس کے لیے پروفیسر خورشیداحمد سے ایک نہایت عمدہ کتاب اسلامی نظریۂ حیات تالیف کروائی تھی)۔ اب ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) جو اعلیٰ تعلیمی نصاب اور طریقِ تدریس کی نگرانی کا ذمہ دار ہے، اسلامیات کے اس ’کانٹے‘ کو تو نہیں نکال سکا، تاہم اس کی جگہ ’اسلامیات اور پاکستانیات‘ (Islamic & Pakistan Studies) کے عنوان سے ایک مضمون رکھ دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کی تاریخ تو ہے، مگر اسلام کا کہیں نام و نشان نہیں۔
نئے تعلیمی نظام کے ذریعے نئی نسل اسلامی اور روایتی اعلیٰ ثقافتی اقدار اور اپنی قومی زبان سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ اُردو صرف بولنے کی زبان رہ گئی ہے۔ صرف انگریزی کو علم کی زبان تصور کرلیا گیا ہے۔ پوری قوم اُردو کے رسم الخط اور حروف تک سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے۔ اُردو بھی اب رومن حروف میں لکھنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے (خصوصاً اشتہاروں اور مختصر اعلانات میں)۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنی زبان کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ چین، جاپان، کوریا، نیز یورپی ممالک نے اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی نئی نسلوں کو علوم و فنون کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ انگریزی بے شک ایک عالمی زبان ہے، اس سے شناسائی (بلکہ عبور) میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ اُردو ہی ہے جس کے ذریعے ہم ملک کے گوشے گوشے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں،اور اسی کے ذریعے کم محنت سے علوم کو وسیع حلقوں میں پھیلا سکتے ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) نے اس سلسلے میں جو کام کیے، ان کی نظیر بھی سودمند ہوگی۔ تمام عصری و سائنسی علوم، طب، انجینیرنگ کی اعلیٰ تعلیم اُردو ہی میں دی جاتی تھی،اور وہاں کے طلبہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا۔

۸- پس چہ باید کرد :
پاکستان کی مذہبی جماعتوں، بالخصوص جماعت اسلامی نے اپنے جتنے وسائل، روپیا، صلاحیتیں، افرادی قوت اور وقت انتخابات کے ذریعے کامیابی میں صرف کیا، اگر وہ نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتیں تو شاید اس ملک کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔۵انتخابی سیاست کے نتیجے میں برسرِاقتدار آجانے کے بعد بھی کیا ہوسکتا ہے، اس کی ایک حالیہ مثال مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا استیصال اور بغاوت کرکے جنرل سیسی کا برسرِاقتدار آنا ہے۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت کی تعلیم و تربیت ایک مختلف انداز میں ہو، تو ایسی کسی سازش کا کامیاب ہونا ممکن نہیں، جو ہمارے ملک میں بار بار کی گئی اور اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔
نفسیات کے تجربوں میں ’آموزش بہ سعی وخطا (Learning by Trial and Error) ایک دل چسپ تجربہ ہے۔ ایک چوہے کو ’بھو ل بھلیوں‘ (maze) میں چھوڑ دیتے ہیں، جس کے دوسرے سرے پر پنیر کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ چند مرتبہ غلطی کرکے وہ اندھے راستوں سے واقف ہوجاتا ہے، اُدھر نہیں جاتا اور پھر سیدھا (بغیر غلطی کیے) پنیر کے ٹکڑے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس حقیرجانور نے صحیح راستہ دریافت کرلیا ہے۔ ہمارے قائدین صحیح راستہ کب دریافت کریں گے؟
ضرورت ہے کہ اہلِ دانش سر جوڑ کر بیٹھیں، حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں، اور ایک نئے طریق /نئے لائحۂ عمل کو تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہوں۔ بہرحال، ہمیں حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال (مفکرِ پاکستان) کہتے ہیں کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیے۔
 (ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم, ترجمان القرآن )

پاکستان آزادی سے اب تک : کیا کھویا ، کیا پایا؟

پاکستان بچاؤ Save Pakistan & Save Pak Army 
Save Pak FB

۱-غالباًمقالہ نگار کی مراد ’تعلیماتِ اسلامی بورڈ‘ سے ہے ، جو قراردادِ مقاصد کی منظوری ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کے بعد ’دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (بیسک پرنسپلز کمیٹی: BPS )کے تحت قائم کیا گیا تھا، جس کے سربراہ سیّد سلیمان ندوی تھے، جب کہ ارکان میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا محمد اکرم خان، مولانا ظفراحمد انصاری، مفتی جعفرحسین، پروفیسر عبدالخالق اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ شامل تھے۔
۲- بھارت کا دستور ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور ، اور۲۴جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذالعمل ہوا۔
۳-یہ بات اصولی طور پر درست نہیں ہے کہ ’اسرائیل نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا‘۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے ۱۹۴۴ء میں وضاحت فرمائی تھی:’’میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے دو ہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اس معنی میں، جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لا بسایاجائے اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنادیا جائے۔ بخلاف     اس کے مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘(ترجمان القرآن، جولائی-اکتوبر ۱۹۴۴ء)۔ اسرائیل کا کسی طرح بھی پاکستان کے قیام سے موازنہ نہیں بنتا، کیوں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل اور کسی نسلی عصبیت کے بغیر وجود میں آیا، جب کہ اسرائیل،مغربی سامراج کی دھونس، دھاندلی، قدیم فلسطینی باشندوں کی بے دخلی اور قتل و غارت کے بل پر، اور سب سے بڑھ کر یہودی نسل پرستی کے اصول پر وجود میں آیا۔
۴-  قائداعظم نے دہلی میں نہیں، بلکہ کراچی میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مسلح افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہندستان میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں، میرا انھیں یہ مشورہ ہے کہ وہ مملکت کے ساتھ بلاجھجک وفاداری (unflinching loyalty)کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو دوبارہ منظم کریں اور صحیح قسم کی قیادت پیدا کریں، جو اس خطرناک زمانے میں ان کی ٹھیک طور پر رہنمائی کرسکے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندستان کی حکومت ان لوگوں کی غیردانش مندانہ کارروائیوں کے باعث اپنا نام بدنام نہیں ہونے دے گی، جو ظالمانہ اور غیرانسانی طریقوں سے مسلمانوں کے انخلا یا انھیں فنا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر اقلیتوںکے مسئلے کا حتمی حل عوامی سطح پر تبادلہ آبادی کے ذریعے ہی ہونا ہے، تو پھر اس کا تصفیہ حکومتوں کی سطح پر ہونا چاہیے، اس معاملے کو خون خوار عناصر پر نہیں چھوڑنا چاہیے‘‘ (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam، جلد۴، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۲۸)۔ اس خطبے میں قائداعظم نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ ’’تم مت پاکستان آئو‘‘۔ یاد رہے، کم و بیش ۱۹۶۵ء تک بھارت سے مسلمان نقل مکانی کر کے پاکستان آتے رہے اور انھیں بجاطورپر شہریت دی جاتی رہی۔ پھر اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہےکہ ہرملک کے شہری کو، جب تک وہ متعلقہ وطن کا شہری ہے یا اس نے متعلقہ ملک کا شہری بننا قبول کرلیا ہے تو اسے اسی ملک کا وفادار رہنا چاہیے، جس طرح اہلِ پاکستان چاہتے ہیں، کہ پاکستانی ہندو برادری، پاکستان کی وفادار رہے۔
۵-  حلقۂ اثر میں بہت سے افراد نے نجی سطح پر تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، جن کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں ہے۔
http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1095