ہندو کی فطرت‘آبادی اور خوف میں اضافہ
بھارت کے سینئر صحافی اور بظاہر غیر متعصب ہندو‘ کلدیپ نیر اپنے ملک میں ایک لبرل دانشور کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے زیر نظر مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے تین سالہ دورِاقتدار میں‘ بھارتی وزیراعظم کس سمت میں چل نکلا ہے؟ موجودہ صورت حال میںبر سر اقتدار پارٹی‘ بی جے پی نے خوف و دہشت کی جو فضا پیدا کر دی ہے‘ اب بھارت کے بظاہرغیر مذہبی آئین کا دعویٰ کبھی حقیقت میں نہیں بدل پائے گا۔ ان کا حالیہ مضمون ''کیا پاکستان ہندوستان کو تقسیم کر رہا ہے؟‘‘۔۔۔۔ یہ ہے ہندو ذہنیت کی خصوصیت۔ متحدہ ہندوستان میں بھی ان کی بھاری اکثریت تھی‘ اس کے باوجود بھی وہ‘ مسلمانوں سے ہمیشہ ٹکرانے کے موڈ میں رہا کرتے تھے۔ پاکستان معرض وجود آنے کے بعد بھی ہندوئوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کی مہم چلائی اور بی جے پی کی موجودہ حکومت آنے کے بعد تو سارے پردے اٹھا دئیے گئے۔ بھارتی آبادی کے تمام اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہاں مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد کے قریب ہو چکی ہے لیکن کلدیپ نیر بھی یہی لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی 14.8 فیصد ہے۔ آبادی کے اتنا کم کرنے کے باوجود‘ مخصوص ہندو خوف آج بھی موجود ہے۔کلدیپ نیر جیسے سینئر صحافی نے اپنے مضمون کی جو سرخی لگائی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہندوئوں کی تعداد میں خواہ کتنا اضافہ ہوتا جائے، ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کا خوف بڑھتا ہی رہے گا۔ آج کے حالات میں بھی انہیں ڈر یہی ہے کہ پاکستان‘ بھارت کو تقسیم نہ کر ڈالے۔ مجھے یہ مضمون پڑھ کر خوف زدہ ہندو قوم کی حالت پر تعجب ہوا۔ لطف اندوز ہونے کے لئے آپ بھی اس مضمون کا مطالعہ کریں:
''بھارتی وزیر داخلہ‘ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان دوبارہ مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے تاریخ کو آسانی کی خاطر فراموش کر دیا ہے۔ پاکستان ایک نتیجہ تھا نہ کہ سبب۔ اس وقت معاشرہ تقسیم ہو گیا تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں ایسے موڑ پر پہنچ گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ نتیجتاً دونوں الگ الگ خیموں میں بٹ گئے اور ان کے درمیان رابطہ برائے نام ہی رہ گیا۔ یہ درست ہے کہ محمد علی جناحؒ کی قیادت میں مسلم لیگ ایک خود مختار مسلم ملک کے قیام کی خواہاں تھی، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کر لیا تھا، جس میں مرکز کو تین معاملات یعنی دفاع‘ امور خارجہ اور مواصلات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ تو نہرو نے یہ کہا تھا کہ قانون ساز اسمبلی کسی چیز میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے جناح نے کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ انہیں کانگریس پر ''اعتماد‘‘ نہیں ہے جو ہندوستان کے اتحاد کی نمائندگی کی دعویدار ہے۔ بہتر ہو گا اگر راج ناتھ اپنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو راشٹر کے قیام کے منشور کو بدل دیتے۔ وہ ایک انتقامی جذبہ کے تحت ایسا کر رہی ہے۔ مرکز میں بر سر اقتدار آنے کے بعد‘ بی جے پی نے مختلف اداروں میں اعلیٰ منصب والے لوگوں کو بدل دیا ہے‘ کیونکہ اس کے محسن آر ایس ایس کی طرف سے اسی طرح کے احکام صادر کئے گئے۔ جواہر لعل نہرو کی تعلیمات کے نقیب 'نہرو سنٹر‘ میں بھی اتھل پتھل مچائی گئی جبکہ یہ ادارہ تحریک آزادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو‘ ستیش ساہنی آر ایس ایس کے پکے معتقد ہیں۔ گجندر چوہان کو فلم انسٹی ٹیوٹ پونہ کا سربراہ بنائے جانے کے بعد سے اس کے طلبا مستقل عتاب کا شکار ہیں؟ شدہ شدہ احتجاج و مظاہرے کے بعد بھی حکومت اپنے موقف سے نہیں ہٹی۔ دیگر اداروں میں بھی اسی انداز میں تقرریاں عمل میں آئی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسا کوئی پالیسی فیصلہ نہیں لیا ہے‘ جس سے فلسفہ ہندوتوا کی عکاسی ہوتی ہو لیکن ان کی تقریروں اور اقدامات سے مذہب پسندوں کی طرف میلان کا اشارہ ملتا ہے۔ معاشرے میں نرم ہندوتوا کی جھلک پائی جاتی ہے۔ چاہے وزیر اعظم یہ کہیں یا نہ کہیں۔ عوام نے بہر حال غالب اکثریت سے انہیں لوک سبھا میں پہنچایا ہے اور وہ پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ملک کے12کروڑ مسلمان (یعنی 14.8 فیصد) ملک کے انتظامی امور میں شاید ہی کسی شمار و قطار میں آتے ہوں۔ مرکز میں کابینہ کے درجے کا صرف ایک مسلمان وزیر ہے اور اس کے پاس بھی کوئی پورٹ فولیو نہیں ہے۔ مسلم فرقے کی طرف سے اب کوئی مطالبہ ہوتا نہیں ہے، گویا اس نے دوسرے درجے کی شہریت قبول کر لی ہے۔ دراصل وہ(مسلمان ) دفاعی کیفیت میں ہیں اور ملک کی تقسیم کے لئے خود کو الزام دے رہے ہیں۔ میں نے ایک بار جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے وابستہ ایک مسلم دانشور سے سوال کیا کہ یہ فرقہ پر اسرار طور پر خاموش کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اب صرف اپنے جان و مال کا تحفظ درکار ہے اور یہ کہ اسے احساس ہو گیا ہے کہ اکثریتی فرقے کو ملک کے تئیں اس کی وفاداری میں شک ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فرقے کے لوگوں کے ذہن میں یہ احساس بیٹھ گیا ہے کہ ملک کے بٹوارے میں ان کا ہاتھ تھا اوراگر وہ حکومت سے کچھ مطالبات کریں گے تو انہیں غلط سمجھا جائے گا۔ وزیرداخلہ‘ راج ناتھ سنگھ نے اس شک کو بھی اجاگر کیا ہے جو شدت پسند ہندوئوں کے ذہن میں مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ اوسط ہندو‘ اوسط مسلمان کے لئے گنجائش رکھتا ہے اور دونوں ہی لیڈروں کے اکسانے کے باوجود‘ وہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملات اور لین دین کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات میں حیرت انگیز طور پر کمی آئی ہے اور ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ایسے مواقع پر دونوں فرقوں نے‘ ایک دوسرے کے لئے باز آباد کاری میں حصہ لیا ہے۔ ہندوستان کو لازماً اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے جمہوریت کو صحیح معنوں میں مستحکم نہیں کیا ہے؛ حالانکہ اسے قائم کر دیا گیا ہے۔ اس کا بھر پور مظاہرہ انتخابات کے زمانے میں دیکھا جاتا ہے۔ جمہوری اقدار کے فقدان کی وجہ سے‘ ہندوئوں کے مشکوک احساس ذمہ داری کا مظاہرہ ہوتا ہے جو کہ اکثریت میں ہیں۔ در حقیقت اقلیتی فرقے کو راحت کا احساس دلانا اور ان میں اعتماد پیداکرنا اکثریت کی ذمہ داری ہے۔
میں حال ہی میں سری نگر میں تھا۔ میری رہنمائی کے لئے ایک مسلم انجینئر کو مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے شکایت کی کہ ان کے مذہب کی وجہ سے انہیں ملک میں کہیں اور ملازمت نہیں مل سکی۔ پرائیویٹ سیکٹر کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہ مسلم ہیں تو متعلقہ ملازمت کی تمام اہلیتیں رکھنے کے باوجود‘ انہیں نہیں رکھا گیا۔ ان کے کشمیری ہونے کی وجہ سے معاملہ مزید خراب ہو گیا۔ دیگر مسلمانوں کو بھی ملک میں کہیں بھی ملازمت حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں انہیں تعصب کی وجہ سے جگہ نہیں ملتی۔ مسابقتی امتحان میں اچھے نمبر لانے میں دشواری انہیں اس لئے ہوتی ہے کہ ان کی تعلیم مہنگی فیس وصول کرنے والے پرائیویٹ سکولوں میں نہیں ہوتی۔ سرکاری سکولوں میں اچھی سہولتیں اور ماحول نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ جب میں ''اسٹیٹس مین دہلی'' کا ایڈیٹر تھا تو انگلینڈ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے ہندوستان آنے والے ایک مسلم ملازم نے شکایت کی تھی کہ انہیں ایک اچھے علاقے میں مکان نہیں مل پایا۔ میں یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ وہ سچ کہہ رہے تھے اور یہ کہ کسی ہندو کے گھر میں مسلمان کرایہ دار کا ہونا ممکن نہیں تھا۔ یہ صورت حال1960ء کی دہائی کی ہے۔ آج بھی اکثریتی فرقے کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
وزیر داخلہ کو یہ یقینی بنانے کے لئے اقدام کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کو ہندو اکثریتی علاقوں میں مکان کرایہ پر ملے۔ ورنہ ایسے پر ہجوم علاقے وجود میں آتے جائیں گے جہاں مسلمان خود کو محفوظ سمجھیں۔ معمول کی افطار پارٹیاں منعقد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ‘ جو ہر حکومت اور اس کی دیکھا دیکھی پارٹی لیڈران‘ اقلیتی فرقے کو رجھانے کے لئے کرتے رہتے ہیں۔ ممبئی جیسے مہذب شہر میں بھی فساد ہونے کے دوران‘ اپنی شناخت چھپانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے نام کی تختیاں ہٹانی پڑیں۔ افسوس کہ ان کے ہندو ہمسائے ان میں اتنا اعتماد پیدا نہ کر سکے کہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں اور بلا جھجک ان کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔ جس چیز کی انہیں ضرورت ہے وہ ہے تحفظ کا احساس۔ اور یہ احساس جگانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے حفاظتی افواج کو مذہبی ترغیبات سے بالا تر ہونا پڑے گا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ فساد زدہ علاقوں میں تعینات فورسز‘ جانب داری اور تعصب پر اتر آتی ہیں۔ امن بر قرار رکھنے کے لئے اکثر فوج طلب کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس کا کردار آلودہ نہیں ہوتا۔ راج ناتھ سنگھ کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر نگرانی فورسز کو مذہبی تعصب سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کریں۔ اس کے بجائے وہ تقریریں کر کے ملک کی تقسیم کے تباہ کن نتائج کا الزام پاکستان پر رکھ رہے ہیں۔‘‘
نذیر ناجی
Source: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2016-12-22/17945/40362658#sthash.RFKyjltv.dpuf
More: http://www.rjgeib.com/biography/milken/crescent-moon/asian-subcontient/hindu-islam-history/hindu-islam.html
Pages
▼