Pages

Destruction if National Action Plan (NAP) نیشنل ایکشن پلان کا دھڑن تختہ ۔۔۔۔ !


آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے ایک 20 نکاتی جامع منصوبہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔20 میں سے 4 پوائنٹ پر فوج نے عمل کرنا تھا جو کیا۔ مگر حکومت باقی 16 پوائنٹس پر عمل درآمد نہیں کروایا رہی اس سے دہشت گردوں کو مدد مل رہی ہے اور وہ تباہی بربادی میں مشغول ہیں۔ کچھ دانشوروں کی رائے:
سلیم شاہد کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل تو ہو رہا ہے لیکن خود پاکستانی فوج اپنے بیان میں حکومت سے کہہ چکی ہے کہ وہ اس کی تمام شقوں پر عملدرآمد کرے۔
شہزاد چوہدری کا خیال ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بہت سے ایسے نکات ہیں جن پر اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر لوگ ان نکات کو ہاتھ نہیں لگا رہے ۔
امتیاز گل کا کہنا ہے کہ’ فوج کی جانب سے تو فاٹا، سندھ اور بلوچستان میں فوج نے جا کر حکومت کی رٹ قائم کی ہے لیکن نیشنل ایکشن کا دوسرا حصہ سویلین ادارے تھے۔ پولیس انٹیلیجنس بیورو کی کارکردگی ہے جس پر ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔‘
اب بھی حکومت نیشنل ایکشن پلان کے کن اہم نکات کو نظر انداز کر رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں سلیم صافی کا کہنا تھا کہ پہلی خرابی تو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے ایکشن کے بجائے ری ایکشن پلان بناتی ہے یعنی کسی بھی واقعے کے بعد ایک فوری جوابی کارروائی کا منصوبہ مرتب کرتی ہے۔
سول لیڈر شپ غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اگر وہ کسی دباؤ میں ہے بھی تو اس کی جانب سے کبھی بھی عوام کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔‘سول حکومت نہ تو نیکٹا کو فعال کر سکی نہ مدارس کی اصلاحات نہ اداروں میں رابطوں کی بہتری کے لیے کچھ کر سکی ہے۔
اس کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ سول اور ملٹری قیادت نیشنل ایکشن پلان اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک ہی رائے پر متفق نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سول قیادت غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اگر وہ کسی دباؤ میں ہے بھی تو اس کی جانب سے کبھی بھی عوام کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
سول حکومت نہ تو نیکٹا کو فعال کر سکی نہ مدارس کی اصلاحات، نہ اداروں میں رابطوں کی بہتری کے لیے کچھ کر سکی ہے۔‘
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگرچہ دہشت گردی کے واقعات ایک بار پھر بڑھتے نظر آ رہے ہیں تاہم جب تک پاکستان میں نظریاتی، سٹریٹیجک اور سفارتی سطح پر درست اقدامات نہیں کیے جاتے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔
.....................
اب ضرورت ہے کہ:
1 ۔۔۔ عدالتی سزاؤوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ 
اس شق پر عمل درآمد عدلیہ کی حکم امتناع کے بعد روک دیا گیا ہے۔ یعنی اس شق پر خود عدلیہ نے ہی عمل درآمد رکوایا ہوا ہے۔

2 ۔۔۔ فوجی عدالتوں کا قیام۔ 
اس شق میں یہ پخ لگائی گئی کہ فوجی عدالتیں خود ایکشن نہیں لے سکیں گی بلکہ سول حکومت ان کو کسیز فارورڈ کرے گی۔ ان آرمی عدالتوں کی مدت صرف دو سال رکھی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 11000 کیسز میں سے صرف چند ایک ہی آرمی عدالتوں کے حوالےکیے گئے۔ جن کے فیصلہ فوری طور پر آرمی عدالتوں نے سنا دئیے۔ تب آرمی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ نے ایکشن لے کر ان پر عمل درآمد رکوا دیا۔ ان سزاوؤں کو وکلاء بار کی صدر عاصمہ جہانگیر نے انسانیت کے خلاف قرار دیا۔ اب ان عدالتوں کی مدت ایک مہینہ ہوئے ختم ہوگئی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ان کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو باقی سیاسی جماعتوں کو پہلے اعتماد میں لے گی!

3 ۔۔۔ ملک سے مسلح ملیشیاز کا خاتمہ۔
یہ کام پاک فوج کر رہی ہے اور اس نے یہ کر دیا ہے کہ کے پی کی، قبائیلی پٹی، بلوچستان اور کراچی سے دہشت گردوں کے مراکز اور لشکروں کا خاتمہ کر دیا ہے۔

4 ۔۔۔۔۔ نیکٹا کا قیام 
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے اس ادارے کے لیے اسحاق ڈار صاحب پچھلے دو سال سے فنڈز ہی ریلیز نہیں کر رہے تھے۔ کیونکہ حکومت کے پاس 21 ارب روپے نہیں تھےجبکہ اسی اثنا میں اورینج ٹرین کے لیے 160 ارب، میٹرو کے لیے 70 ارب اور کسان پیکج کے لیے 300 ارب فوری طور پر فراہم کر دئیے گئے۔ حالت یہ ہے کہ نیکٹا کے پاس اپنی بلڈنگ تک نہیں ہے۔ اس کے بورڈ اور گورنرز کا پہلا اجلاس ہی طلب نہیں کیا جا سکا ہے کیونکہ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کرنی ہے جو ابھی تک اس میٹنگ کے لیے ٹائم نہیں نکال سکے ہیں۔ (کوئٹہ بلاسٹ سے پہلے وزیراعظم نواز شریف پچھلے 4 دن سے مری کے موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے)

5 ۔۔ انتہا پسندانہ مواد اور تقاریر کا خاتمہ۔
اس پر کوئ عمل درآمد نہیں کروایا گیا گو کہ وزیرداخلہ صاحب نے اعلانات بھی کیے۔ آج بھی مساجد میں نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں اور اہم ترین سیاسی علماء حکومت کے اتحادی ہیں جنکا ان مساجد پر اثرورسوخ ہے۔ نتیجے میں کچے ذہنوں میں انتہاپسندی پھیل رہی ہے۔

6 ۔ دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنا۔ 
اس کےلیے پاک فوج نے کراچی میں زبردست آپریشن کیا جس کے نتیجے پیپلز پارٹی دہشت گردوں کی سب سے بڑی فنڈنگ کرنے والی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اسی کی سندھ میں حکومت بھی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نواز شریف حکومت کی غیراعلانیہ اتحادی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کا معاملہ لٹکا دیا گیا اور ٹپی، شرجیل میمن اور آصف زرداری وغیرہ پاکستان سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ تب فنڈنگ کیسے روکیں ؟

7 ۔۔ کلعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے فعال ہونے سے روکنا۔
اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہو رہا بلکہ کچھ کلعدم تنظمیں رانا ثناءاللہ کے ذریعے حکومت کی اتحادی بنی ہوئی ہیں۔

8 ۔ انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی فورس کا قیام۔
یہ فورس شائد قیامت والے دن بنے گی۔ سول حکومت دو سال پورے ہونے کے بعد بھی اب تک اس پر کام کا آغاز نہیں کر سکی ہے۔

9 ۔۔ مذہبی بنیادوں پر استحصال اور امتیاز کے عمل کو روکنا۔ 
اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہورہا۔ حتی کہ میڈیا تک پر فرقہ واریت پر مبنی مباحثے پیش کیے جا رہے ہیں۔ سول حکومت اور پیمرا خاموش ہے۔

10 ۔۔ مدارس کی رجسٹرین اور ریگولیشن کو یقینی بنانا۔
اس پر عمل درآمد تو دور کی بات سول حکومت دو سال پورے ہونے کے بعد بھی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ یہ کام مذہبی وزارت کے امور نے کرنا ہے، تعلم کی وزارت نے یا وزات داخلہ نے۔ جبکہ مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورکس چلانے والے فضل الرحمن جیسے لوگ حکومت کے اہم ترین اتحادی ہیں۔

11 ۔۔۔ میڈیا وغیرہ سے دہشت گردوں کو پرکشش بنانے کا عمل روکنا۔
میڈیا میں تو پاک فوج کے خوف سے یہ عمل کم ہو گیا ہے لیکن جب بات دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی آتی ہے تو آج بھی نہ صرف میڈیا بھرپور انداز میں انکا موقف پیش کرتا ہے بلکہ میڈیا پر آکر وہ دھڑلے سے آپریشن کرنے والی رینجرز اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ حکومت اور اسکے ماتحت کام کرنے والی پیمرا اس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔اسی طرح سوشل میڈیا اور مساجد کے منبروں پر یہ کام بدستور جاری ہے۔

12۔۔۔ فاٹا میں ریفارمز۔ 
یہ ایک سہانا خواب تھا جس پر جمہوری حکومت کی جانب سے صفر کام کیا گیا۔ بلکہ دہشت گردی سے متاثر ویزرستان کے لوگوں کے لیے فنڈز تک منظور نہیں کیے جا سکے۔ ان لاکھوں متاثرین کی دیکھ بھال اور ویزرستان میں ممکن حد تک انفرسٹرکچر کی تعمیر پاک فوج محض اپنے بل بوتے پر کر رہی ہے۔

13 ۔۔۔۔ دہشت گردوں کے کمیونیکشن نیٹ ورکس ختم کرنا۔
پاک فوج اور ہماری اینٹلی جنس ایجنسیوں نے اس پر کام کرتے ہوئے حیرت ناک کامیابی حاصل کی اور نہ صرف پورے پورے نیٹ ورکس پکڑے گئے بلکہ تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کل بھوشن کی صورت میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک چلانے والے بھی پکڑے گئے۔ سول حکومت سے توقع کی جارہی تھی کہ اب وہ یہ معاملہ بھرپور انداز میں انڈیا اور ایران کے سامنےاٹھائی گی بلکہ اقوام عالم کے سامنےبھارت کا چہرہ بے نقاب کرے گی۔ لیکن وزیراعظم پاکستان کی زبان سے تاحال کل بھوشن کا نام تک نہیں لیا گیا ہے۔

14 ۔۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا۔
اس پرآج بھی کھل کر دہشت گرد اپنے نظریات کی پرچار کر رہے ہیں۔ تاہم حکومت پر تنقید کے خلاف کچھ دن پہلے نہایت تیزی سے سائبر کرام بل منظور کر لیا گیا ہے۔

15 ۔۔ پنجاب کے اندر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔
پنجاب میں پاک فوج اور رینجرز کو سول حکومت آپریشن کرنے کی اجازت ہی نہیں دے رہی ۔ جبکہ لیفٹننٹ جنرل طارق کے مطابق زیادہ تر " دہشت گردوں کا مائنڈ سیٹ جنوبی پنجاب میں بنایا جاتا ہے اور وہیں سے سب سے زیادہ بھرتیاں کی جاتی ہیں جبکہ سندھ سے فنڈز آتے ہیں " ۔۔ معروف صحافی عارف حمید بھٹی کےمطابق "تمام صوبوں سے دہشت گرد بھاگ کر جنوبی پنجاب میں پناہ لیتے ہیں جس کو دہشت گردوں کے لیے جنت کا ٹکڑا بنا دیا گیا ہے۔ "

16 ۔۔ کراچی میں آپریشن۔ 
اس پر رینجرز اور پاک فوج پوری تندہی سے عمل کر رہی ہیں اور اس کے تحت جتنی بھی گرفتاریاں ہوئیں سب کی پشت پر سیاسی و جمہوری جماعتیں برآمد ہوئیں۔ جنہوں نے اب اس آپریشن کو ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کا معاملہ لٹکا دیا گیا ہے۔ نائن زیرو پر چھاپے میں دو درجن دہشت گرد پکڑے گئے تھے ان کا ابھی تک کچھ نہیں ہوسکا ہے۔ بہت سوں کی عدلیہ نے قبل از گرفتاری ضمانتیں منظور کر لیں۔ عدالت میں گرینڈ پھٹ جاتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ " ثابت " نہیں ہورہا۔ حکومت نے پاک فوج کی مدد کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کا دو سال بعد بھی کوئی اتا پتا نہیں ہے۔

17 ۔۔ بلوچستان میں مفاہمت ۔۔
اس پرجنرل ناصر جنجوعہ صاحب نے بے پناہ کام کیا اور بے شمار بلوچون کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا۔ لیکن جہاں تک ان بلوچوں کی محرومیاں دور کرنے کی بات ہے تو حالت یہ ہے کہ صرف صوبائی وزیر خزانہ کے سیکٹری کے گھر سے 70 /70 کروڑ روپے نقد برآمد ہو رہے ہیں۔ بلوچوں کے حقوق جمہوریت کھا گئی۔ اگر یہی حالت رہی تو آپ انکو دوبارہ واپس دہشت گردی کی طرف جانے سے کتنا عرصہ تک روک پائینگے ؟؟

18 ۔۔ فرقہ ورانہ تنظیموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عہد۔۔ 
کیا اس پر آپ نے کسی پیش رفت کے بارے میں سنا ہے ؟ ابھی تک صفر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ فرقہ پرستی پر بنی کچھ جماعتوں کے سیاسی ونگ بھی ہیں جو حکومت کے کافی قریب ہیں۔

19 ۔۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ حل کرنا۔ 
اس معاملے میں صرف پاک فوج اور کے پی کے میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت ہی کام کر رہی ہے اور افغان مہاجرین کی باعزت اور جلد واپسی پر کام ہو رہا ہے۔ جبکہ حکومتی جماعت کے تینوں اہم ترین اتحادی مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور اسفند یار والی افغان مہاجرین کی واپسی کی مخالفت کر چکے ہیں۔ بلکہ محمود اچکزئی تو صوبہ کے پی کے کو افغانستان کا صوبہ قرار دے چکے ہیں۔ لیکن کسی نے ان سے سوال تک نہیں کیا۔

20 ۔۔ عدلیہ یا جسٹس سسٹم کی تشکیل نو۔
اس پر کوئی کام نہیں ہوا ہے اور عدلیہ ہی پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ ہے۔ صرف عدالتیں ٹھیک ہوجائیں تو ہر قسم کی کرپشن، بد انتظامی اور جرم کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن دو سال ہوگئے ہیں ابھی تک اس معاملے میں حکومت کی طرف سے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔

آپ نوٹ کیجیے نیشنل ایکشن پلان کے صرف ان ہی حصوں پر کام ہو سکا ہے جو پاک فوج نے کرنے تھے۔ جمہوری حکومت کے حصے کا کام دو سال بعد بھی صفر کا صفر ہے۔ منتخب جمہوری حکومت نے ابھی تک کمیٹیاں بنانے، اجلاس کرنے، بیان بازی اور بھاری بھرکم تنخواہوں پر نئے نئے وزیر اور مشیر بھرتی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
پاکستان میں دہشت گردی ایک نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس میں دنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتیں ملوث ہیں اور انکی مدد پاکستان کے اندر سے کئی مذہبی اور سیاسی گروہ کر رہے ہیں۔ اس جنگ کے بے شمار پہلو ہیں اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے مشورے سے یہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تاکہ سارے پہلوؤں کا احاطہ ہوسکے۔
پاک فوج کے ذمے اس پلان کا سب سے مشکل حصہ تھا جو اس نے پورے جوش و جذبے سے اور اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانی دے کر بخوبی پورا کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے جو آپ ملک میں کسی حد تک امن و آمان دیکھ رہے ہیں۔ لیکن جو حصہ منتخب جمہوری حکومت نے کرنا تھا اس پر ایک فیصد کام بھی نہیں ہوا بلکہ الٹا پاک فوج کے راستے میں بھی مختلف رکاؤٹیں حائل کی جا رہی ہیں جنکا مشاہدہ آپ کر رہے ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں نیشنل ایکشن پلان کا دھڑن تختہ کرنے کے درپے ہیں۔ اگر صورت حال یہی رہی تو 6 لاکھ تو کیا 60 لاکھ کی فوج بھی یہ دہشت گردی ختم نہیں کروا
 اس کا مطلب مارشل لاء نہیں بلکہ عوام کو حکومت پر دبائو بڑھانا تاکہ اپنا کام کریں 

Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Overall 2 Million visits/hits