Pages

Ideological Confusion - نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل



"ہم ایک ایسے اسلامی تصور کا تعاقب کر رہے ہیں جو انسانیت، جمالیات، دانش اور روحانی عقیدت سے خالی ہے … جس کا تعلق طاقت سے ہے نہ کہ روح سے، عوام کو  حصول اقتدار کے لیے متحرک کیا جاتا ہے نا کہ ان کی مشکلات کے خاتمے اور تمناؤں کے حصول کے لیے." (اقبال احمد)

“We are chasing an Islamic order ‘stripped of its humanism, aesthetics, intellectual quests and spiritual devotions…. concerned with power not with the soul, with the mobilization of people for political purposes rather than with sharing and alleviating their sufferings and aspirations.”[Eqbal Ahmad]

Image result for militancy biggest problem of muslims
ام الامراض:
احمد جاوید ایک حیران کن آدمی ہیں، پاکستان کے دو تین جینوئن دانشوروں میں ان کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ قدیم و جدید علوم سے انہیں استفادہ کا موقعہ ملا۔ مولانا ایوب دہلوی جیسے عبقری عالم دین اور متکلم سے انہیں دینی اصول و اسلوب سیکھنے کو ملے۔ سلیم احمد جیسے لیجنڈری ادیب اور دانشور سے برسوں ان کی نشستیں رہیں۔ دراصل یہ پروفیسر محمد حسن عسکری کا سکول آف تھاٹ تھا، جسے سلیم احمد نے قابل قدر اضافوں کے ساتھ آگے بڑھایا۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
Image result for muslim glorious past

 احمد جاوید  صوفی بھی ہیں، فلسفہ پر لیکچر بھی دیتے ہیں، اقبال اکیڈمی سے برسوں تک بھی وابستہ رہے۔ اعلیٰ درجے کے شاعر بھی ہیں۔  خوش قسمتی سے احمد جاوید کا پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے ایک لیکچر مل گیا، موضوع گویا پانی ہوگیا۔
احمد جاوید نے اس انٹرویو میں کئی نہایت خوبصورت اور فکر افروز باتیں کہی ہیں۔

 پاکستانی سماج کے انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

 ''ہمارا سب سے بڑا اجتماعی مرض یا ام الامراض یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں... ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا۔
 ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھو ٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے، اپنے معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہو جانا مرض ہے، مگر اس معمولی پن، گھٹیا پن پر راضی ہو جانا موت ہے‘‘۔

 احمد جاوید سے سوال پوچھا گیا کہ:
 ہمارے معاشرے میں قحط الرجال کیوں ہے، کوئی بڑا ادیب پیدا ہو رہا ہے، بڑا شاعر نہ بڑا عالم دین؟

 دانشور کا جواب بڑا صاف اور قطعی تھا:
 ''بڑے لوگ پیدا نہ ہونے کا سبب وہی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اوسط سے بھی نیچے درجے کی قوم بن چکے ہیں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے، اس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نکل نہیں سکتے۔
 ہمارا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصور علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو تو ظاہر ہے اس تعلیمی نظام سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور کو تقویت نہیں ملے گی‘‘۔

 آگے جا کر احمد جاوید صاحب نے ایک دلچسپ تھیسس پیش کیا ہے۔ کہتے ہیں:

''ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، اجتماعی قلب اور اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اپنے اجتماعی شعور کو سیراب کرنے کے لئے ہر تہذیب اپنا نظام علم بناتی ہے۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی ارادہ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اب اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد، خواہش سے دستبردار ہو کر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کر لے تو اس کا وہ اجتماعی ارادہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تخلیقی اعمال نہیں ہو سکتے، بڑے مقاصد حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی قلب اس تہذیب کی محبت، نفرت اور اس کے جذبات، احساسات کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات بھی رکھتی ہے۔ اگر تہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہو جائے تو اس کا قلب دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ ان تینوں سطحوں پر اگر دیکھیں تو ہم بانجھ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔

''اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں رہے کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ رہے اس کے افکار و اقدار، یہ رہی ہماری منزل اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔ جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت، حفاظت کا نظام ختم ہو جائے، اس تہذیب کو باطنی قوت فراہم کرنے والا نظام تعلیم، نظام اخلاق، نظام انصاف وغیرہ ختم ہو جائے تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ بڑا آدمی اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو کہتے ہیں۔ جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا، وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی۔ اس لئے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں‘‘۔
ا اس پر غور فرمائیے کہ چند سطروں میں پاکستانی قوم کو درپیش سب سے بڑے مسئلے یا ام الامراض (امراض کی ماں) کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اس کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے

افکارِ تازہ

 بڑا بنیادی سوال پوچھا کہ

 آپ کے کہنے کے مطابق بلحاظ نظام تعلیم، نظام اخلاق اور نظام انصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں، ایسے حالات میں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟

احمد جاویدکا جواب تھا:

”تبدیلی کے تین ماڈل سامنے موجود ہیں۔ یہ تینوں ماڈل

 (1)تبلیغی جماعت،
(2) جمہوریت کے ذریعے غلبہ دین کی جدوجہد 
(3) طاقت کے ذریعے تبدیلی لا کر خلافت قائم کرنے کے خواہش

 تین ماڈل اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔

(1)تبلیغی جماعت، 
اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک موجود نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والا نظام تبدیل نہیں ہوا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام ہے، البتہ چھوٹے چھوٹے (انفرادی) دائروں میںکامیاب ہے۔ 

(2) جمہوریت کے ذریعے غلبہ دین کی جدوجہد 
اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کر کے غلبہ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں، یہ (جماعتیں) بھی مضحکہ خیز صورت اختیار کر چکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی؛ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں، ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیہ کو عمل میں لانے کے لئے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے اور اپنی جماعت کو چلانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے۔ یہ تمام خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی غائب ہوگئی ہے۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کانمونہ ہے“۔

(3) طاقت کے ذریعے تبدیلی لا کر خلافت قائم کرنے کے خواہش
”تیسرا ماڈل غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام خلافت ہے۔ یہ تحریک مایوسی (desperation) اور گویا احتجاج میں اٹھی ہے۔ پچھلے دونوں ماڈلز کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے کے بعد یہ رد عمل ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں عالمگیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکنزم ہوتا ہے، جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا ماڈل یا گروپ ہے، ان کا المیہ یہ ہے کہ جو موجودہ یونیورسل میکینکس آف چینجز ہیں، ان سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالمگیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کر لینا ہے۔ عسکریت پسند جماعتیں یا خلافت کے قیام کے پرامن جدوجہد کرنے والی تحاریک، یہ سب اپنے زمانے کی روح سے لڑ رہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام نے غلامی کے رد کے لیے اس زمانے میں خود بھی یہ کچھ نہیں کیا تھا (اسی وجہ سے غلامی کو بتدریج کم اور ختم کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ع خ ) جمہوریت آج پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے۔ اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر، لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہو جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ گروہ جو بھی کر رہا ہے، وہ عسکریت پسندی کی شکل میں کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی، لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی (مسلح جدوجہد) سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث نہیں بن سکتی ۔اس لیے جو لوگ عسکریت پسندی میں ملوث نہیں، مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ یہ ایک دہشت کا سا تصور ہے کہ آپ اپنے ذہن میں کھلے ہوئے پھول کو باہرکی زمین میں اگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھلے پھولوں کو پاﺅں تلے روند رہے ہیں۔ یہ پست ذہنیت کی علامت ہے“۔

” ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے، وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے، اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی ہوںگے۔ دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری سٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری غالب مذہبی قوتیں معاشرتی انقلاب لانے کے بجائے ریاستی سٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ عالم اسلام میں کام کرنے والی دیگر اسلامی تحریکوں کی خامی بھی یہی ہے۔ اخوان المسلمون ہو یا الجزائر کی اسلامک فرنٹ وغیرہ وغیرہ۔ سیاسی جدوجہد کرنے والی یہ سب جماعتیں ایک سی ہیں۔ سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔ انسانوں میں دیر پا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خود بخود بدلنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں، فرد کو بدلنے کا تصور ہے جسے تبلیغی جماعت استعمال کر رہی ہے۔

 مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟

مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بنا کر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا یہ ہماری دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے، جو ایک بہت بڑی کمی ہے۔ (یہ بات سمجھ لینا چاہیے) اب ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہو گا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا، سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔
سب سے ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر، اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
 مسلم معاشرے کا ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔
مغرب کو ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے، وہاں کے حساس اور ذہین طبقات یہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بنا کر دکھا دیں تو مغربی معاشرہ فتح ہوسکتا ہے۔
 ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالم اسلام میں ایک بھی حکومت اسلامی نہیں، لیکن اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالم اسلام میں ایک بھی معاشرہ اسلامی نہیں“۔ عسکریت پسندی کے ضمنی نقصانات اور تباہ کاری کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں احمد جاوید نے جو تبصرہ کیا، وہ ہمارے ہاں کے سخت گیر مذہبی سوچ والوں کو غور سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ کہتے ہیں :

”مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کا ایک راستہ تصادم کا ہے کہ چونکہ مغربی تہذیب کے پھیلاﺅ میں اس کی قوت کا بہت عمل دخل ہے، اس لیے اس پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے بھی قوت (مسلح جدوجہد) استعمال کی جائے۔ مسلم تہذیب اپنی کچھ پاکٹس میں طاقت کے ذریعے مزاحمت (Power Resistance) کر رہی ہے کہ ہم جنگجوﺅں کے ذریعے اس کا راستہ روک لیںگے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کچھ تنکے اکٹھے ہو کر سونامی کوروکنے کا منصوبہ بنائیں۔ یہ انتہائی لغو خیال اور بے معنی طرز عمل ہے۔ یہ جنگجوئی اور عسکریت پسندی مغرب کے غلبے کی قبولیت میں اضافہ کر رہی ہے، یعنی مغربی تہذیب کو اخلاقی جواز فراہم کر رہی ہے۔ تہذیبوں کے پھیلاﺅ میں جو سب سے بڑے جواز معاون ہوتے ہیں، ان میں سے ایک جواز ان کی اخلاقی برتری کا ہے۔ اب مغرب کے خلاف تشدد کا رویہ اور دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے جائیںگے، مغرب کے جسم پر ان سے ایک خراش بھی نہیں آئے گی، بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم (یعنی عوام ) ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔ اس سے ان کے پھیلاﺅ کا راستہ اور ہموار ہوتا جائے گا“۔

فکری غذا
پاکستان میں رہنے والے اہل علم و فکر کے سامنے کئی ایسے پہلو ہیں جن پر غورکرنے اور بحث و تمحیص کے بعد کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
 دینی فکر رکھنے والے دائیں بازو کے لوگ ہوں یا لبرل و سیکولر سوچ رکھنے والے حلقے، ان سب کے لیے ریاست کو درپیش چیلنجز بنیادی ترجیح ہے۔

 شدت پسندی، اس کے محرکات، اسے قوت فراہم کرنے والا بیانیہ اور ریاست کی ہیٔت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سب کے لیے اہم ہیں۔

 دینی حلقے اپنے انداز سے اس ایشو کا سامنا کر رہے ہیں اور سیکولر سوچ کا اپنا لائحہ عمل ہے۔ ایک بڑا ایشو البتہ بنیادی طور پر دینی سوچ رکھنے والے معتدل طبقات اور روایتی دینی حلقوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز ہے۔

 چند بنیادی سوالات ہیں۔

(1) مغربی تہذیب کے غلبے سے مسلم تہذیب کو کس طرح بچایا جائے؟

 (2) مسلم تہذیب کو دنیا کے سامنے کس طرح مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے پیش کیا جا سکتا ہے؟

 (3) مغرب کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہو؟

 (4) مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا رویہ، مسلم امہ کی بقا، مسلم تہذیب، اسلامی بینکاری، بلاسود مائیکرو کریڈٹ فنانس (اخوت ماڈل) اور اس طرح کے دیگر ملتے جلتے موضوعات ہمارے رائٹ ونگ، سنٹر آف دی رائٹ یا زیادہ واضح اصطلاح میں دینی سوچ رکھنے والے لوگوں کا مسئلہ ہیں۔ 

یہ لبرلز یا سیکولر دوستوں کا ایشو نہیں کہ وہ تو سر ے سے مسلم تہذیب، مسلم امہ وغیرہ کی اصطلاحات ہی سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

 جو لوگ البتہ اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، اسے سرفراز دیکھنا اوررب کی خوشنودی پانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر یا کم از کم ان کا ایک حصہ اس جانب کھپانا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ محض اصطلاحات نہیں، بلکہ مقصد حیات ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جہاں مجموعی طور پر ایک خوفناک قسم کے جمود کا شکار ہو چکا ہے، فکری حوالے سے یہ صورت حال زیادہ گمبھیر ہے۔ لگتا ہے جیسے ہم کسی جوہڑ میں رہ رہے ہوں۔

ادیب، صوفی اور دانشور احمد جاوید کے تازہ انٹرویو نے اس جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کئی موضوعات پرایک شاندار بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ اس بیانیہ پر بات کریں، اس کے مختلف پہلوئوں کاجائزہ لیں اور ایک سنجیدہ فکری مکالمے کی بنیاد ڈالیں۔

  اب اس انٹرویو کے چند مزید اقتباسات جو مختلف موضوعات کا عمدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔

''سیکولرازم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ لبرل ازم ایک رویہ ہے، سیکولرازم ایک نظام ہے۔

سیکولرازم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا، اس کے لیے کسی خدائی ہدایت نامے کی ضرورت نہیں۔

 لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے، ایمان بھی ٹھیک ہے، آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے، مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے۔ یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کے کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اورمومن سے اس کے ایمان کی بنیاد پرخصوصی محبت محسوس نہ کرنا، یہ لبرل ازم ہے۔


کوئی مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔

سیکولر ہونے کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات سلب کر لینا، خدا کو غیر متعلق کر دینا۔۔۔۔ تو سیکولر ازم مذہب، خاص کر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اس پوزیشن کو قبول کر لیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے، لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس بات پر ہے کہ انسان، اس کی انفرادیت، اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے، یعنی اسلام کو انسان کی انفرادی، اجتماعی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے۔ سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں، کہتا ہے مرکز انسان خود ہے‘‘۔

''آگے بڑھنے کے لیے آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے زاویہ نظر (Perspective) سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لے آئیں۔
ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں۔ ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگیوں کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور پر عمل کرنے کی قوت موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے۔ ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہونا چاہیے۔ ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ جب تک ہم اسلام کا (World view) ورلڈ ویو بنانے، بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔

 ہر امت، قوم کی پہلی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو(World view) کیا ہے؟

 ورلڈ ویو سے مراد (یہ) ہے کہ اس امت یا قوم کا تصور علم کیا ہے؟
 تصورِ دنیا کیا ہے
، تصور انسان کیا ہے؟

 پہلے ہمیں فراموشی کی دھند میں موجود اپنے ورلڈ ویو کوذہن میں لانے، زبان سے اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تصور کا شعور حاکم طبقے کو ہونا چاہیے، علما کو، تعلیم یافتہ طبقات کو ہونا چاہیے، لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے، خاص کر وہ طبقات جوسوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں، جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔
 ہمارے علما مغرب کو نہیں سمجھتے، مگر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، خاص کر وہ صاحبان جنہیں مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، وہ بھی مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں، جتنا گائوں کا کوئی مولوی۔

 فہم مغرب یعنی وہ فہم جو مغربی تہذیب کے اثرات، اس تہذیب کے مزاج اور اس کے چھپے ہوئے مقاصد (Hidden Agenda)کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے تعلیم یافتہ طبقات میں بالکل نہیں۔ اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا احساس ان میں نہیں ہے (اس اعتبار سے) اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہے‘‘۔

''علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟
 کوئی تہذیب ان دو سوالوں کے جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔
 مغرب کہتا ہے کہ علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی، سلامتی، خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔
 علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ مغرب کے پاس ان دونوں سوالات کے جواب بھی ہیں اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔
انہوں نے کہا، علم محسوساتی(Empirical) ہوتا ہے۔ اس سے انہوں نے فزکس، میتھ اور وہ تمام علوم جو انسان اور دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، وہ لکیر انہوں نے پیدا کر دی، پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر بھی دکھا دیا۔
 انہوں نے کہا، ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہے، ہم اس ایٹم کو استعمال کر کے بھی دکھا سکتے ہیں اور ایسا کر دکھایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں خوشحالی ہونی چاہیے، ہم نے وہ خوشحالی دکھا بھی دی۔


مغرب نے پوری طرح یکسو ہو کر ان دو جوابات سے مدد لی اور پھر ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جار ی کر کے دکھا دیا۔
یہ سبق بھی دیا کہ نہ صرف وہ، بلکہ جو بھی ان کے نظریے کو اپنائے گا، وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال اور ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔

عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی ہے، وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے، اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں۔
یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
 آپ کو بھی ترقی یافتہ ہونے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے۔
عالم اسلام میں جو چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آ رہی ہیں۔۔۔۔ ملائشیا، ترکی وغیرہ، یہ سب انہی دو مغربی اصولوں کی پیروی کے نتیجے میں ہیں۔

 اس لیے اس غلبے سے نکلنے، اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم پہلے ان دو سوالات کے جواب بتائیں۔
 اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں۔ اس میں چاہے سو سال لگیں، لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کر سکتے۔
 مغرب نے ایک ڈسکورس (discourse) دیا جمہوریت کا ۔ 
جمہوریت اہل مغرب کے لیے دین کی طرح ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہے۔

 دوسری طرف اللہ کی حکومت، اللہ کے بندوں کے لیے۔۔۔۔

 یہ ہمارا سلوگن ہے۔ اس کے لیے ہمارے پاس کیا ہے؟

 سودی نظام سے نکلنے کا کیا لٹریچر ہے؟

کیپیٹلسٹ معیشت (Capitalist Economy) کی پیچیدگیاں، موجودہ نیشن سٹیٹ (Nation State) میں شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑیںگے،

 اللہ کی حاکمیت کس سٹرکچر میں ہوگی؟

 اس سب کچھ کے لیے کیا  Narrative بیانیہ ہے ہمارے پاس؟‘

  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل


By Aamir Hashim Khakwani, 10, 11,12 January 2016, Dunya.com.pk
http://m.dunya.com.pk/index.php/author/amir-khakwani/2016-01-12/13985/96651287#sthash.L5yKO0EX.dpuf
https://www.facebook.com/FridaySpecialWeekly/photos/pcb.962495357172112/962494803838834/?type=3&theater


Fighting Terrorism: In the name of narratives: “THIS is a war of narratives ... there is a dire need to come up with counter-narratives ... the menace of terrorism cannot be dealt with without countering the extremist, militant ideologies.”
 ... On the contrary, the solution lies in presenting a counter narrative to the existing narrative on religion. Its details can be looked up in the ...

Links for further study:

The Biggest Problems faced by Muslims:

[Google Translation form Urdu]

Ahmed Javed, a striking man, among two, three intellectuals of Pakistan could count them. They had the opportunity to learn the ancient and modern. Dermal scholar Maulana Job Dehlawi theologians such as religious principles and techniques they have learned. Legendary writers and intellectuals like Ahmed Salim years continue their seats. Actually, it was Prof. Mohammad Hasan School of Thought, Salim Ahmed forward with valuable additions.

Ahmad Javed Sufi are also giving lectures on philosophy, Iqbal Academy for years been associated. Poets are advanced. Fortunately, Ahmad Javed got a lecture on post-modernism, the subject matter as water. Ahmed Javed, in this interview about the most beautiful and minerals have spoken. Referring to the degradation of the society, he says: '' Our biggest collective Umm alamraz disease or that we have become poor people. Tastes, understanding, mind, just in case ... We are below average. It is the leading cause of degeneration and mental and moral decline born. We are very small and small hydroelectric do not wish to remove, do not feel any need to leave their modest pin. Pin to cause minor disease, but this slight pin, pin crap shift is death. Javed Ahmed, the question was asked: Why is our society 's strategy, there is no great writer, the poet, not the scholar? Intellectual answer was clear and unequivocal: '' He is the major cause of the people, not the overall average that we have become the nation's lowest. When we look at others remain the responsibility of their weaknesses, then we can not get out of their weaknesses. Our whole educational system in general, people are generating machine. Knowing that every culture has a mind of its education system is formed. Go ahead, Mr. Ahmed Javed has presented an interesting thesis. Says:'' Every civilization is a collective consciousness, the collective heart and mind are collective. To irrigate the collective consciousness of every culture forms its own system. The collective mind of civilization helps to achieve its objectives. The original refers to a culture, a desire to withdraw from the others decided to make his own purposes, then it is a collective decision could be suspended. As a result, actions can not be creative, collective effort to achieve big goals can not be. The culture of this civilization's collective heart, love, hate, and the emotions, feelings and a special appearance, color and condition holds. Every culture has its own system of feelings. If your system feeling empty and dissatisfied civilization, then the heart stops beating. If you see these three levels we are facing infertility.


'' Now we're not saying that this is worthy of our civilization and the collective mind of the ideas and values, it is our destination and our likes and dislikes.Civilization which nurtures it, care for it, will lose protection system, its internal culture to energize the system, the system code, etc. If the justice system, they are unable to produce great man civilization is made. The manifestation of the mind and heart of the man who becomes a civilization called. The space will be created inside civilization, they will create empty ones. So we are in this crisis. '' A few lines that it might consider the biggest problem facing the nation or alamraz Umm (mother of diseases) have been identified. How this can be done Is Fresh ideas


 That the basic question, 
 By according to your education, morality and justice system we are facing infertility, how such a situation could change?
Ahmed jauydka replied:

"There are changes in the model. These three models


(1) Tablighi Jamaat,


(2) the struggle of democracy dominated religion 


(3) by changing the strength of the desire to establish a caliphate


 Three models  to use all his capabilities despite neutralize, inconclusive and have failed.


(1) Tablighi Jamaat, 


Tablighi Jamaat in any religion of the world largest invitational network does not exist, but the collective work had no bearing on the existence and operation of the system has not changed. We can say that it has failed in a circle, but small (individual) circles is successful. 


(2) The struggle throgh democracy, dominated by religion 


Similarly, the political interpretation of Islam religion dominated by the struggle for democracy, which assumes, in terms of the religious political parties are today, they (the parties) have become too ridiculous. For example, perhaps the largest and most powerful model is Islamic. JI is also a big worry, the sincerity and strength of workers, who may sense a political party they belong to, they have a narrative, the narrative struggles to activate There is an army of workers who run the party is presenting a fair discipline. Despite all the advantages that the party has succeeded in keeping the religious identity or identities, then it disappeared. The existence or gained some recognition, but has now disappeared from politics. The current situation is that the party is no longer the political importance of religious importance. It is a model of the complete failure of the sample ".


(3) By changing through use of force,desire to establish a caliphate


"The third model is dominated by the power in the caliphate. This movement disappointment (desperation) and I woke up in protest. Continuous and complete failure of the previous two models after the observation is reactive.The problem is that every time a change on a global scale is a mechanism, which both truth and falsehood must ban advocates. This is the third model or group, the tragedy is that the mechanics of the current exchanges are universal, they are not concerned in any way. A universal mood change and to change the system itself indifferent to the change in the world I dream of the impossible is possible to assume. 

Militant groups or motions to the peaceful struggle for the establishment of the caliphate, the fighting spirit of his times and contemporaries fighting spirit is not successful. The impact of slavery in this world, it did not do anything (why slavery strategy to gradually reduce and eliminate gyy.a date) Democracy today has become the world's collective subconscious, belief. The cause of the combat, the local change of the basis for the whole world to try lifting a senseless act. The same thing that come to mind fails. 
Another problem is that this group is doing, he is in the form of militancy. militancy ancient structure could become the source of the change, but the modern world is that the structure of the group militancy (armed struggle) social or state level may not be challenged .The people who are not involved in militancy, but their objectives are agreed, for them it is a tragedy. It's a terrorist The concept is that you open your mind to grow flowers outside in the fire in the earth and the open flowers are trampled under foot. This mindset is low ".

"In fact, we need a model, they are essentially the party, the political agree that some powerful elements. 


Invitation to mix politics society on fundamental values ​​is essential to try restructuring and possible .Unfortunately, our dominant religious forces of social revolution to change the structure of the state are interested in. Muslims working in other Islamic movements is the same error. Muslim Brotherhood or the Islamic Front of Algeria, etc. All the political parties are the same. 
سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔انسانوں میں دیر پا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خود بخود بدلنے لگتا ہے۔ہمارے ہاں 
There is no coherent idea of changing society, the concept of change is using the Tablighi Jamaat .


 Who are the people?


Muslim society made ​​it their goal to strive for the intellectual and practical, the movement of the subject or object it is our birthday parties, which is a huge loss. (It should be understood) the survival of our civilization and Muslim civilization or any renewal would be the case if they have relevance in social, political or state will not.The most important thing is to understand how the religious communities that we seek. It seeks to understand the correct way, it is your mental and moral powers, it is our responsibility to put into practice . A sample of the Muslim community to be successful in their invasion of the West will not stop the spread of Islam in the West begins.West is a spiritual society thirsty, there's sensitive and intelligent communities feel it. If we make the spiritual foundations of a welfare society can triumph if Western society . If we cry out that Islam is an Islamic government, but it does not feel weary of the Islamic society in the Islamic world is not ". militancy and disaster losses one side and Ahmad Javed, who commented in response to a question, the US hardline religious thinking intently read and understand. Says:



"One way to avoid the dominance of Western civilization clash is the spread of Western civilization is involved in a lot of his strength, his strength, to prevent the spread of (armed struggle) to be used. Muslim civilization in some pockets of resistance by force (Power Resistance) that is going to fix that fighters prevented its way through. It's like a tsunami that prevent some straw together Plan. 


This behavior is extremely absurd and meaningless concept. This militancy and militancy has been increasing acceptance of the dominance of the West, the Western culture is considered to be morally justified. The biggest contributor to the spread of civilization are justified, they have a sense of their moral superiority. The West's attitude to violence and terrorism as a growing feels that, the sore on the body of one of them will not, but we will change our attitude toward them (the people) believe in their moral superiority will begin.The way it spread and it will be smooth "
Related: