Pages

Media & National Responsibility

میڈیا اور قومی ذمہ داری
نئے ہزاریے کے آغاز پر ممتاز مصنف رابرٹ ڈی کپلان نے نیو یارک ٹائمز میں دنیا کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ ''اکیسویں صدی میں سیاسی نظام نہایت خوبصورتی اور بڑے سلیقے سے بدل جائیں گے اور یہ بیسویں صدی کے اختتامی برسوں کی طرح جمہوریت اور اس کے ریاکارانہ تقدس سے آلودہ نہیں ہوں گے‘‘۔ ان کی مابعد جمہوری دنیا میں قومی خود مختاری کا خاتمہ اور قدیم طرز کی مطلق العنان شہری ریاستوں کا احیاء شامل ہے۔ روایتی انداز سے ہٹ کر، نئے تناظر میں سوچنے کے دعوے دار اور نیو امریکہ فائونڈیشن کے سینئر فیلو کپلان نے یہ بھی کہا تھا کہ ''اگلی صدی ہائی ٹیک فیوڈل ازم کا دور ہو گا‘‘۔ کپلان کو اپنے نظریے کے اظہار کا یقیناً حق حاصل ہے اور ان کی پیش گوئی میں کسی حد تک منطق بھی ہے، لیکن نیو یارک ٹائمز نے یہ پیش گوئی جس عامیانہ انداز سے پیش کی، اس سے حیرت ہوئی۔ ایسے لگا، جمہوریت ماضی کا ایک قصہ ہے جس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اِس متکبرانہ رویے سے ابھرتی ہوئی اُس سوچ کی ایک جھلک نظر آئی جو واشنگٹن اور نیو یارک کے مقتدر ایوانوں میں جنم لے رہی ہے، اگرچہ اس کا اظہار بالعموم نہیں کیا جاتا۔ اس سوچ کا ماحصل یہ ہے کہ آزاد منڈی کی قوتیں تیزی سے ہر چیز پر غلبہ حاصل کر رہی ہیں اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس اعتبار سے جمہوریت یعنی عوام کی مرضی، ایک عظیم نصب العین کی جگہ محض ظاہرداری اور حکمرانی کا حق قوم کے منتخب رہنمائوں کو سپرد کرنے کے بہترین ذریعے کے بجائے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر کاروباری مفادات کا محافظ نیا میڈیا تیزی سے آزاد منڈی کی قوتوں کا شراکت دار بنتا جا رہا ہے۔
بلا شبہ، آج کی دنیا میں میڈیا، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا معاشرے کی رگِ حیات ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حصول اقتدار کا موثر ہتھیار بھی ہے۔ اُسے اپنی اس طاقت کا کامل ادراک ہے کہ عوام کے ذہن کس حد تک اس کے قابو میں ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کے اذہان بھی جو میڈیا کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہمارا میڈیا بھی قومی زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں اور عالمی معاملات کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے میں زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔ Wizard of Oz (ایل فرینک بوم کا 1900ء میں بچوں کے لیے لکھا گیا ناول جس پر 1939ء میں فلم بھی بنی) کی طرح ہمارے عوام 'Wizard boxes‘ (یعنی ٹی وی سیٹ کی سکرین) پر چوبیس گھنٹے نمودار ہونے والے چہروں کے بے شمار ٹاک شو اور نیوز بلیٹن دیکھ اور سُن کر مبہوت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ گرافک امیج‘ اپنی پسند کی چیزوں پر توجہ مرکوز کرانا اور رپورٹنگ کے ذریعے واقعات کے من پسند پہلوئوں کو اجاگر کرنا میڈیا کے ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ ایک سلطنت کو کنٹرول کرتا ہے اور اسے ریاست کا ''چوتھا ستون‘‘ کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے میڈیا کے ایک حصے نے ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتا‘ ہماری تاریخ اور تہذیب کی شکل بگاڑتا اور حکمرانی کے اپنے معیارات وضع کرتا ہے؛ یہاں تک کہ کھیلوں‘ فلم اور تھیٹر تک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا متمنی نظر آتا ہے۔ یہ ملک کے ہمسایوں کے ساتھ قیام امن کے خواب دکھاتا اور وہاں اپنے حصہ داروں کے ساتھ مل کر اپنا کاروبار بڑھاتا ہے، لیکن اسے احساس تک نہیں کہ اس ملک کے ساتھ ہمارے کئی بڑے تنازعات حل طلب ہیں۔
آزادی سے خبریں ٹیلی کاسٹ کرنے کے زیادہ سے زیادہ چینل خرید لینے کے باعث ان کے براڈ کاسٹر عوام کے سامنے کم سے کم جوابدہ ہو گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آزاد اور مختلف نقطہ نظر پیش کرنے کے مواقع محدود تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں میڈیا کی زیادہ سے زیادہ ملکیت حاصل کرنے کی دوڑ نے ملک اور دنیا کے بارے میں خبروں اور دوسری اطلاعات کے معیار پر منفی اثر ڈالا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک کی طرح باقی دنیا میں بھی بعض اوقات سیاسی اور ثقافتی منظر پر اثر انداز ہونے کے لیے میڈیا کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام فرد پر میڈیا کی اثر پذیری بڑھ رہی ہے اور ہمارے جیسے ملک میں، جس کا طرز حکمرانی ناقص ہو، جو اندرونی طور پر غیر مستحکم ہو، جس کا مستقبل غیر یقینی ہو اور جس میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز نہ ہو، میڈیا کو بہت زیادہ آزادی دینے کے اپنے نقصانات ہیں۔ عوام کے ذہنوں پر میڈیا کا اثر بلکہ تسلط بڑھنے کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک سے مخصوص مفادات کی حامل قوتیں میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پیسہ اور اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا لوگوں کی بہتری کے بجائے تیزی سے ایک کمرشل انٹرپرائز کی شکل اختیارکرتا جا رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہمارا میڈیا قومی امنگوں کی ترجمانی اور ملک کی آزادی و قومی وقار کا دفاع کر کے قومی ذمہ داری نبھائے۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں ہماری لبرل اشرافیہ‘ جو ہمارے جوان حکمران طبقے اور میڈیا کے جادگروں پر مشتمل ہے‘ پاک بھارت سرحد کو کاغذ پر کھینچی گئی ایک پتلی سی جعلی لکیر قرار دیتی ہے‘ یہاں تک کہ میڈیا کا ایک حصہ بعض اوقات پاکستان کے وجود تک پر سوالات اٹھا دیتا ہے۔۔۔ وہ بڑی بے باکی سے اس یقین کا اظہار کرنے سے بھی نہیں کتراتا کہ اگر یہ باریک لکیر مٹا دی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور ہم ایک قوم کی طرح امن کے ساتھ خوشی خوشی ایک ساتھ زندگی بسر کریں گے‘ اس صورت میں ہمیں افواج کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ افسوس ہے کہ ان لوگوں کی سوچ غلط ہے‘ انہیں تاریخ پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ پاکستان کا وجود کسی تاریخی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے۔
یہ ملک طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کی سرحدیں خون سے کھینچی گئی ہیں جنہیں ہماری حکمران اشرافیہ کے کچھ ارکان اور میڈیا کی طرف سے خیر سگالی پر مبنی بیانات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ برس پاکستان کے عوام اس وقت ششدر رہ گئے جب ہمارے نظریے کی حفاظت کے دعوے دار ایک انگریزی روزنامے نے بھارت کے ایک معمولی سے لکھاری کو وافر جگہ ( Space ) فراہم کر دی جس نے پاکستان کے وجود تک پر سوالات اٹھائے اور یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ یہ ملک (خدانخواستہ) پندرہ سے بیس سال میں دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم بے شرمی کی حد تک اپنی بقا کے بارے میں بے حس ہو چکے ہیں۔ ملک کے حالیہ واقعات چشم کشا ہیں۔ یقیناً آزادی اظہار کو ہمارے آئین میں بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن آرٹیکل 19 میں اس کی حدود و قیود بھی بیان کر دی گئی ہیں۔ اظہار رائے اس بات سے مشروط ہے کہ اس سے اسلام کی عظمت‘ پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی‘ سکیورٹی اور دفاع‘ خود مختار ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ ملک کا امن و امان‘ اخلاقیات‘عدلیہ کا احترام مجروح نہ ہو اور اس سے مجرمانہ سرگرمیوں کی ترغیب نہ ملے۔
اب دنیا کے تمام معاشرے تسلیم کرتے ہیں کہ آزادی اظہار لامحدود نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری آزادیوں کی طرح آزاد میڈیا کے غلط استعمال سے بھی غلط بیانی‘ بلیک میل‘ توہین اور کردار کشی کا احتمال ہوتا ہے۔ اس وقت میڈیا کے پاس عالمی سطح کا ایک ایسا مضبوط کیس موجود ہے جس کو مثال بناتے ہوئے وہ اپنی نئی نئی آزادی کی ازخود حدود متعین کر سکتا ہے۔ اس پر قانونی‘ اخلاقی اور تہذیبی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افراد‘ انسانی گروہوں‘ پورے معاشرے‘ ریاست اور اس کے اداروں کا احترام ملحوظ رکھے۔
اگر میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہتا ہے‘ شفاف حکمرانی اور باشعور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے تو پھر میڈیا ہائوسز کو چاہیے کہ وہ مانیٹرنگ اور جوابدہی کا ایسا طریق کار وضع کریں جس سے غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی حوصلہ شکنی ہو۔ حدود سے متجاوز ہوتی ہوئی کمرشل ازم غیر صحت مندانہ رجحان کی نشاندہی کرتی ہے‘ اس لیے یہ ختم ہونی چاہیے۔
اب وقت ہے کہ ہم اپنی آزادی اور وقار کے تحفظ کے نقطہ نظر سے اپنے قومی مفادات کی اندرونی طاقت کا ادراک کریں، مسلح افواج کو ذاتی سوچ سے بالا رکھیں اور حکومت بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کے سلسلے میں ترجیحی بنیاد پر سرخ خطوط کا تعین کرے اور ان پر عوام اور قانون ساز ادارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح ہم بہت سے بحرانوں سے محفوظ ہو سکیں گے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
By Shams had Ahmed  dunya.com.pk