Pages

Malicious Scandle out of an incidence

سانحے میں سکینڈل
جو لو گ حامد میر کی آڑ لے کر‘پاک فوج کی شہرت پر دھبہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہ تو حامدمیر کے دوست ہیں ‘نہ اپنے ادارے کے اور نہ ہی اپنے پروفیشن کے۔ حامد میر کے نام پر جو مہم چلائی جا رہی ہے‘ اس کا ہدف پاک فوج ہے۔ ابھی تک حامد میر کا اپنا موقف سامنے نہیں آیا۔ جہاں تک ان کے بھائی عامر میر کا تعلق ہے‘ ان کا انٹرویو پہلے دن لیا گیا‘ جب وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے حامدمیر سے منسوب کرتے ہوئے جو باتیں بتائی ہیں‘ ہر قابل ذکر صحافی کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں۔ جب کوئی نہ کوئی ریاستی یا سماجی طاقت اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت صحافیوں پر دبائو ڈالتی ہے۔ کئی بار دھمکیوں پر عمل بھی ہو جاتا ہے اور کئی بار بات ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے معاملات پر صحافی نجی محفلوں یا گھر کے اندر جو بات چیت کرتا ہے‘ اس کی بنیاد وہ معلومات یا اطلاعات ہوتی ہیں‘ جنہیں وہ مصدقہ نہیں سمجھتا اور جس بات پر اسے پورا یقین آ جائے‘ تو وہ اپنی تحریر یا باضابطہ گفتگو میں اس کا اظہار کر دیتا ہے۔حامد میر کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ خبر کی تصدیق ہونے کے بعد خاموش رہ گئے ہوں گے‘ ان کے مزاج کے مطابق نہیں۔ جو شخص برستی گولیوں میں گھس جاتا ہے۔ تشدد اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے سوات کے اندر جا کر‘ دہشت گردوں کے خلاف جلوس نکال دیتا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی ناپسندیدہ سرگرمیوں پر کھل کر تنقید کرتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرے کی صورت میں اس کا اظہار نہیں کرے گا‘ خلاف حقیقت ہے۔
یہاں تو ایسے ایسے صحافی موجود ہیں‘ جو تین میں ہیںنہ تیرہ میں‘ صرف اپنی اہمیت جتانے کے لئے دعوے کرتے رہتے ہیں کہ انہیں کسی ایجنسی کی طرف سے دھمکی ملی ہے۔ آئی ایس آئی کے خلاف خبریں چھاپتے ہیں۔ تبصرے کرتے ہیں۔ اپنی مظلومیت کی داستانیں سناتے ہیں اور دندناتے بھی پھرتے ہیں۔ حامد میر تو عالمی شہرت رکھنے والے صف اول کے صحافی ہیں۔ وہ اگر اپنی زندگی کو لاحق خطرے کی طرف اشارہ بھی کر دیتے‘ تو دنیا بھر کا میڈیا ان کے ساتھ آ کھڑا ہوتا۔ یہ بات ہم سب سے زیادہ آئی ایس آئی کو معلوم ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی شہرت یافتہ پرائم ایجنسی ایسی بیوقوفی کرے گی اور اگر کرتی بھی‘ تو حامد میر ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اظہار کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ میں ان ریٹائرڈ جنرل حضرات سے متفق ہوں‘ جنہوں نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی جیسی اعلیٰ پیشہ ورانہ شہرت رکھنے والی ایجنسی‘ اس طرح کا بھونڈا اور ناکام آپریشن نہیں کرتی۔ جو لوگ ناکام قاتلانہ حملے کا الزام آئی ایس آئی پر لگارہے ہیں‘ ان کی اپنی معلومات ناقص ہیں۔ جو لوگ یہ ظاہر کرنے میں لگے ہیں کہ آئی ایس آئی انہیں ہراساں کرتی رہی ہے‘ وہ خود اپنی تردید کرتے ہیں۔ صحافی مشکل ہدف نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں نے صحافیوں پر جتنے حملے کئے ہیں۔ سب کے سب کامیاب ہوئے۔ کیا آئی ایس آئی نیم تربیت یافتہ دہشت گردوں سے بھی گئی گزری ہے؟ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں بہت سے کام رازداری کے ساتھ کرتی ہیں۔ ایسے کاموں کی برسوں بلکہ عشروں میں بھی ہوا باہر نہیں نکلتی۔ راز ہمیشہ راز رہتے ہیں۔ جب تک رازداری کی ضرورت ختم نہیں ہوتی‘ خفیہ واقعات منظرعام پر نہیں آتے۔
پاکستان میں عام طور سے آئی ایس پی آر ‘ میڈیا سے رابطے رکھتی ہے۔ اسے صف اول کے تمام کمانڈروں کی طرف سے ایسی معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ جن کی اشاعت قومی مفاد میں ہو۔ بعض حساس مسائل پر میڈیا کے قابل ذکر لوگوں سے آئی ایس آئی براہ راست رابطوں میں رہتی ہے اور انہیں مختلف واقعات کا پس منظر بتا کر‘ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پیشہ ورانہ فائدہ ضرور اٹھائیں گے لیکن قومی مفاد کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ دنیا کی کونسی بڑی خفیہ ایجنسی ہے جس کے میڈیا سے رابطے نہیں ہوتے؟ بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے‘ جب کوئی فریق حدود سے تجاوز کرنے لگے۔ مثلاً ایجنسی کی طرف سے حساس نوعیت کی معلومات پر میڈیا کو اعتماد میں لیا جائے اور وہ شخص پیشہ ورانہ اصول توڑتے ہوئے‘ ان معلومات کو عام کر دے‘ جو رازداری کی شرط پر دی جاتی ہیں‘ تو یقینا کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہر کیس میں ایجنسی کسی صحافی کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ ان دنوں آپ کئی صحافیوں کے بیانات پڑھ اور سن رہے ہوں گے۔ جن میں وہ اپنے ساتھ آئی ایس آئی کی زیادتیوں کی تفصیل بتاتے ہیں۔ درحقیقت وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی کسی نہ کسی وجہ سے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی رہی۔ ایسے لوگ اگر پھر بھی آزادی سے پھر رہے ہیں‘ تو اس کا مطلب ہے کہ آئی ایس آئی نے ناراضی کے باوجود ‘ ان کے
ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔آئی ایس آئی میں تینوں فورسز کے ملازمین لائے جاتے ہیں۔وہ دفاعی معاملات کی حساسیت اور رازداری کے اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جب انہیں کسی شخص پر یقین ہو جائے کہ اس کی سرگرمیاں قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں‘ تو پھر وہ ایک فوجی کی طرح ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کیا سی آئی اے‘ را‘ موساد اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے کارندے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر‘ دشمن کے شہروں اور اڈوں میں داخل ہو کر حساس معلومات حاصل نہیں کرتے؟ اگر کوئی صحافی‘ کسی بھی ذریعے سے یہ جان لے کہ کونسا شخص ‘ کہاں پر خفیہ ڈیوٹی انجام دے رہا ہے اور اسے شائع یا نشر کر دے‘ تو کیا اسے معاف کیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی سلامتی اور آزادی سے تعلق رکھنے والی حساس معلومات شائع کی جا سکتی ہیں؟ اور کیا خفیہ ایجنسیوں کے پاس اپنی شکایت عدالتوں میں لے جانے کی گنجائش ہوتی ہے؟انہیں ہر حالت میں اپنی رازداری کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے‘ قانون کی مدد نہیں لی جا سکتی۔ ایجنسیوں کو کئی بار قانون کی مدد لئے بغیر کچھ کام کرنے پڑتے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک‘ ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ جن اصولوں کا اطلاق عام محکموں پر کیا جاتا ہے‘ دفاعی معاملات میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایک غیرمصدقہ الزام عائد کر کے‘ آئی ایس آئی کے سربراہ کی نمایاں تصویر مسلسل دکھانا کسی بھی طرح موزوں نہیں۔ یہ سلوک تو پولیس کے کانسٹیبل کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی پرائم سیکرٹ ایجنسی کے سربراہ کو قاتلانہ حملے میں ملوث کر کے‘ بار بار اس کی تصویر دکھانا انتہائی نامناسب بات ہے۔ دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیوں کے افسران اور عملے کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی ''را‘‘ کے سربراہ کی تصویر دیکھی ہو اور وہ بھی اس پر ایک فرضی الزام کے ساتھ۔ کوئی قانون‘ کوئی پیشہ ورانہ مجبوری یا اختیار‘ ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ایک عام شہری پر محض تہمت کی تشہیر کریں۔ عام طور پر خفیہ اداروں کے افسر اور اہلکار اپنی پیشہ ورانہ حیثیت ظاہر نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں‘ سی آئی اے کے سٹیشن چیف کا نام ظاہر ہو گیا تھا۔ اسے 24گھنٹے کے اندر اندر واپس بلا لیا گیا۔ خفیہ اداروں میں کام کرنے والوں کے بارے میں اتنی احتیاط برتی جاتی ہے۔
جس نامور صحافی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا‘ اس کا نام لے کر جو الزامات لگائے گئے‘ میں نہیں سمجھتا کہ حامد میر جب تفصیلات معلوم کریں گے تو خود سے منسوب کر کے نشر کی گئی باتوں سے اتفاق بھی کریں گے۔ ہمیں ان کا موقف جاننے کے لئے صحت یاب ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ ''وزیراعظم نے اپنے ماتحت ادارے کے سربراہ پر لگے ہوئے الزام کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘اپنے ماتحت محکموں کی ساکھ اور نیک نامی کو بچانے کی ذمہ داری منتخب قیادت کی ہوتی ہے۔ خاص طور پر خفیہ محکمے کا سربراہ اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے میڈیا پر نہیں آ سکتا۔ آئی ایس آئی کے تمام عہدیدار‘ اچانک شروع کی گئی مہم پر یقینا حیران ہوئے ہوں گے اور جب ان کے وزیراعظم اور وزیردفاع کی طرف سے دفاع نہ ہوا‘ تو مایوسی پھیلنا فطری امر تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف ‘جنرل راحیل شریف نے خود آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر جا کر اپنے ساتھیوں کے حوصلے بڑھائے اور آگے بڑھ کر محکمے کا دفاع کیا۔ کل تین وزیر اچانک حرکت میں آئے۔ وزیردفاع نے ''پیمرا ‘‘میں درخواست جمع کروائی اور چوہدری نثار علی خان اور وزیراطلاعات نے بیانات جاری کئے۔ یہی سب کچھ بروقت ہو جاتا‘ تو فوج کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے خود آگے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیشک حکومت اور مسلح افواج پر لگائے گئے الزامات‘ اداروں کے لئے تکلیف دہ تھے۔ لیکن میں گزارش کروں گا کہ ردعمل میں اعتدال سے کام لیا جانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سانحے اور آئی ایس آئی کے خلاف مہم کے جواب میں‘ سخت اقدامات کئے جائیںجیسے کہ آزادی اظہار پر پابندی یا اسی طرح کے دوسرے اقدامات جو میڈیا پر دبائو ڈالنے کا ذریعہ بنیں۔میڈیا نے اپنے قومی اداروں کا بڑھ چڑھ کر دفاع کیا ہے۔جن لوگوں نے صدمے کی حالت میں غیرمتوازن ردعمل ظاہر کیا‘ انہیں بھی نظرانداز کر دینا چاہیے۔البتہ جن افراد نے فوج کے ادارے کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی‘ انہیں تنبیہہ ضرور کرنا چاہیے۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کا سانحہ ایسا نہیں‘ جس میں سے سکینڈل نکالا جاتا۔
By Nazir Naji dunya.com.pk