Pages

Five years of Political journey, losses & gains; Blanced analysis by Amir Khakwani - پانچ سالہ سیاسی سفر کیا کھویا کیا پایا

پانچ سالہ سیاسی سفر کیا کھویا کیا پایا




Zafar Hilaly
We have tumbled into and been tossed from one species of government to another. We have suffered a ‘brutal’ dictatorship and savored an ‘enlightened’ one. Tired of a ‘sham’ democracy we tried the real thing and, somewhere along the way, anarchy ...


It may have been democratic, but it is over now - the tenure of the elected federal and provincial.....





Capital suggestion

Intention, capacity and delivery. He wanted to give 300,000 really deserving,



حکمران اور اپو زیشن جماعتوں کو کیا حا صل ہوا، کیا گنوا بیٹھیں، پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی قو تیں کیا کرتی رہیں، مذہبی جماعتوں نے کیا صف بندی کی؟۔۔۔۔تجزیاتی رپورٹ
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی منتخب جمہوری حکومت اوراسمبلیوں نے اپنی مقررہ مدت مکمل کی ہے۔ ویسے تو2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی نے بھی اپنی مدت پوری کی تھی، مگراس پر ڈکٹیٹرجنرل پرویزمشرف کا ہاتھ تھا، اسی لیے اسے معروف معنوں میں جمہوری حکومت نہیں قرار دیا گیا۔ ان انتخابات کی کریڈیبلٹی بھی قائم نہیں ہوسکی تھی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونیوالی جمہوری حکومت سے عوامی اورسیاسی حلقے بہت توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ جنرل مشرف کے ساڑھے آٹھ، نو سالہ اقتدار کے بعد ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملا تھا۔ یہ دونوں ڈکٹیٹرکی معتوب رہیں۔ دونوں کے قائدین کو کئی برسوں تک جلا وطنی کی حالت میں رہنا پڑا۔ دونوںجماعتوں میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی گئی، کئی اہم لیڈروں کو پارٹی چھوڑ کر مشرف کی زیرسرپرستی اتحاد میں شامل ہونے پر مجبورکیا گیا۔ ان حالات میں دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ دونوں سیاسی جماعتیں اس بار عوام کو ریلیف دینے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گی اور سابقہ غلطیاں دہرانے سے گریز کیا جائے گا۔

 بدقسمتی سے یہ توقعات پوری نہ ہوئیں ۔ پچھلے پانچ برسوںپر نظر ڈالی جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیاستدانوں نے ملک اورقوم کو مایوس کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ان کے لیے ذاتی مفادات قومی مفادات سے کہیں زیادہ اہم اور پیسہ بنانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ ایک بات البتہ ماننا پڑے گی کہ دونوں بڑی جماعتوں نے آپس کی لڑائی کو حد سے نہیں بڑھنے دیا اور معاملات کنٹرول میں رکھے۔ ایک دوسرے کوگرانے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میںمسلم لیگ ن اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود دونوں جماعتوںنے اپنی مدت مکمل کی۔ اگرچہ اس پر مسلم لیگ ن کو فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات بھی سننا پڑے۔ ابتدا پاکستان پیپلزپارٹی سے کرتے ہیں کہ حکمران جماعت ہونے کے ناتے اس کا پہلا حق ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بلند و بانگ دعوئوں سے اقتدار میں آئی تھی۔ اس کی مرکز میں عددی اکثریت تھی، اس نے دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملایا ۔ صوبہ سرحد ( خیبرپختونخوا) میںپی پی نے اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں اور بلوچستان میں پہلی بار اسے حکومت بنانے کا موقعہ ملا۔ پنجاب میں وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہی۔ اس بہتر پوزیشن کے باوجود پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کو انتہائی مایوس کن ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ پوری مدت بدترین سیکنڈلز، سازشوں، جوڑ توڑ، اتحادیوں کو خوش رکھنے کی کوششوں اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے واقعات سے معمور ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی نے گنوایا بہت کچھ، حاصل کم ہی ہوا۔ پارٹی اپنی نان گورننس اور نااہلی کے باعث ہر جگہ بدنام ہوئی۔ پانچ سالوں میں جیالے کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ پارٹی تنظیمی اعتبار سے کمزور ہوئی۔ مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو آگے لانے کے بجائے خوشامدی اور پیسے والے ہی اوپر آئے۔ پنجاب میں کارکنوں کا مورال نچلی حد کو چھورہا ہے تو پہلی بار اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جذبات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ سندھ میں اس بار عجب کام یہ ہوا کہ تقریباً پوری اسمبلی ہی حکومت میں شامل تھی۔ روایتی طور پر اینٹی پیپلز پارٹی پوزیشن رکھنے والے پیر صاحب پگاڑا بھی اپنی فنکشنل لیگ سمیت حکومت کا حصہ بن گئے تو پیپلز پارٹی سے برسوں پہلے الگ ہونے والے جتوئی صاحب کا دھڑا بھی اس بار پیپلز پارٹی کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگیا۔ اس قدر عظیم اکثریت رکھنے کے باوجود سندھ کے عوام پریشان حال ہی رہے۔ کراچی میں تمام معاملات متحدہ قومی موومنٹ کے گورنر کے پاس رہے تو اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا ووٹر حکومتی بے توجہی پر حیران و پریشان تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ سندھ میں بدترین سیلاب سے بے پناہ تباہی ہوئی مگر سندھ حکومت ریلیف کے لیے لوگوں تک نہ پہنچ پائی۔ سیلاب زدگان کے لیے امداد میں خردبرد کی عجب داستانیں پھیلی رہیں۔ بلدیاتی آرڈی نینس بھی شہری اور دیہی سندھ کو تقسیم کرنے کا باعث بنا۔ پیپلز پارٹی نے اپنی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو خوش کرنے کی خاطر کراچی، حیدر آباد میں مشرف دور کا بلدیاتی قانون جبکہ باقی سندھ میں پرانا بلدیاتی آرڈی ننس جاری کیا جس پر بڑے مظاہرے ہوئے، سندھ کے لئے نئے پیر پگاڑا کی قیادت میں ایک بڑا اتحاد بن چکا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بار پیپلز پارٹی کے روایتی حلقوں کی کئی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہے گا۔ خیر اس کا فیصلہ تو الیکشن میں ہوجائے گا، یہ بات مگر ہے کہ اگر پارٹی کے قائد سیاسی جوڑ توڑ کی جگہ دیانت داری اور خلوص سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتے تو پیپلز پارٹی آج بہت بہتر سیاسی پوزیشن میں موجود ہوتی۔ پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی ناکامی انرجی کے بحران کو کنٹرول نہ کرنا ہے۔ 5 سال پہلے ملک میں جس قدر لوڈشیڈنگ تھی، آج اس سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے بجائے بدترین کرپشن کا راستہ رینٹل پراجیکٹ کی صورت میں ڈھونڈا گیا۔ اسی طرح LNG کے ٹھیکے بھی غیر شفاف انداز میں دینے کے باعث سپریم کورٹ نے منسوخ کردیئے۔ پٹرول کی خوفناک رفتار سے بڑھتی قیمت نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یوٹیلٹی بلز میں غیر معمولی اضافے نے مڈل کلاس کو کمزور کریا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر وزراء پر مسلسل کرپشن کے الزامات لگتے رہے، جنہیں عوامی حلقے درست مانتے رہے کہ ان لوگوں کے لائف سٹائل میں انقلابی تبدیلی آگئی تھی۔ اپنی خاندانی گھڑی بیچ کر الیکشن لڑنے والے کے بیٹے جب کروڑوں کی گاڑیوں میں نظر آئیں گے تو افواہوں کو فطری طور پر تقویت ملے گی۔ ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ بعض اہم کامیابیاں ان کے حصے میں آئیں۔ این ایف سی ایوارڈ، اہم آئینی ترامیم جن سے پارلیمانی نظام مضبوط ہوا اور صوبوں کو اختیارات ملے، ان کے ساتھ ساتھ گوادر پورٹ چین کو دینا اور ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط کرنے کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لے سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبوں کو پہلی بار اتنے اختیارات ملے کہ قوم پرستوں کی سیاست کے ایشوز ہی ختم ہوگئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام کامیابیاں نظری نوعیت کی ہیں، اصولی طور پر یہ بڑی اہم ہیں، مگر ان کا براہ راست عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے کاموں میں حکومت بری طرح ناکام رہی ۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے ساتھ ملک میں جاری بدترین بدامنی بنیادی حکومتی کمزوری رہی۔ کراچی جو پرویز مشرف کے دور میں پرسکون ہوچکا تھا ،پچھلے تین برسوں میں یہاں ہزاروں جانیں جاچکی ہیں۔ ہر روز کئی لاشیں گرتی اور موت چہار سو رقص کرتی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اس شہر نگاراں میں متعدد ایسے مسلح گروپ بن چکے ہیں جن پر قابو پانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ شہر لسانی اعتبار سے تین چار حصوں میں منقسم ہے۔ ہر لسانی جماعت کے اپنے مسلح جتھے ہیں، بھتہ لینے والے بے شمار گروپ اس سے الگ ہیں۔ سندھ حکومت کی نااہلی سے کراچی کا مسئلہ بہت گھمبیر ہوگیا ہے، آنے والی حکومت کے لئے اسے حل کرنا آسان نہیں۔ مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ ن کی کارکردگی 2002ء کے انتخابا ت میں بہت بری رہی تھی، جنرل مشرف کے دبائو کے باعث مسلم لیگ کا بڑا حصہ مسلم لیگ ق کی شکل میں علیحدہ ہوگیا تھا، اسمبلی میں ن لیگ کو صرف چند نشستیں مل سکیں۔ 2008ء کے انتخابات میں البتہ مسلم لیگ ن ایک بڑی قوت بن کر ابھری۔ پنجاب ان کے پاس دوبارہ آگیا، قومی اسمبلی میں وہ طاقتور اپوزیشن بنانے میں کامیاب رہے۔ ن لیگ نے اپنی دانست میں سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پالیسی بنائی کہ مرکز میں حکومت سے الگ ہوکر اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے، تاہم پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مخلوط حکومت میں شامل رکھا جائے تاکہ وہ پنجاب حکومت چلنے دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاپولر موڈ کو دیکھتے ہوئے عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس ضمن میں انہیں 2009ء میں لانگ مارچ بھی کرنا پڑا جسے چند گھنٹوں میں کامیابی نصیب ہوئی اور جج بحال ہوگئے۔ ن لیگ کو اندازہ تھا کہ ان کی اصل قوت پنجاب ہی ہے اس لئے انہوں نے پنجاب حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مرکز میں حکومت کو بڑی حد تک فری ہینڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ وفاقی حکومت کی مختلف ایشوز پر مخالفت تو کرتے رہے مگر انہوں نے پوری قوت سے دبائو ڈالنے سے گریز کیا۔ ہر اہم موقع پر میاں نواز شریف ملک سے باہر چلے جاتے۔ ان کی یہ حکمت عملی اسی لحاظ سے تو کامیاب رہی کہ لانگ مارچ کے مو قع پر پنجاب میں گورنر راج لگانے کے سوا پیپلز پارٹی نے پنجاب حکومت کو تنگ کرنے سے گریز کیا۔ نقصان البتہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کی کمزور پالیسی کے باعث ان پر فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام لگا اور پھررفتہ رفتہ تبدیلی کے خواہاں لوگ تحریک انصاف کی جانب جانے لگے۔ اسی وقت پنجاب میں تحریک انصاف کی جانب سے مسلم لیگ ن کو ایک سنجیدہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سال ڈیڑھ پہلے تک تو یوں لگ رہا تھا جیسے ن لیگ پنجاب کے مقابلے سے آئوٹ ہوچکی ہے، تاہم پھر ن لیگ کے تھنک ٹینک متحرک ہوئے۔ پارٹی نے اپنی پالیسی تبدیل کی۔ ایک طرف دوسرے سیاسی گروپوں سے مذاکرات کئے۔ سندھ میں تمام اینٹی پیپلز پارٹی قوتوں کو اکٹھا کردیا۔ پختون خواہ میں جے یو آئی فضل الرحمن کے ساتھ معاملات طے کئے۔ مسلم لیگ ق کے وہ ارکان اسمبلی جو جنرل مشرف کے ساتھ رہے، پہلے ن لیگ انہیں لینے میںمتامل تھی، اب اس نے اپنے دروازے ان تمام الیکٹیبلز (قابل انتخاب لوگوں) کے لیے کھول دیئے۔ ماروی میمن سے امیر مقام اور ارباب غلام رحیم سے ق لیگی ارکان اسمبلی تک ہر ایک کو دھڑا دھڑ پارٹی میں شامل کیا جارہا ہے،دوسری طرف عمران خان کی اصل قوت یوتھ ووٹ بینک میں شگاف کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے۔ پنجاب حکومت کے اربوں کے فنڈز اس پر صرف ہوئے۔ ایک لاکھ کے قریب طلبہ کو لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ دیئے جا چکے ہیں۔ کئی مہینوں سے مختلف اقسام کے یوتھ فیسٹیول اور مقابلے ہورہے ہیں۔ مریم نواز کو سیاست میں فعال بنایا گیا۔ انہیں لاہور کے مختلف گرلز کالجز اور یونیورسٹیوں میں خطاب کے مواقع دیئے گئے۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں ن لیگ اپنی پوزیشن اور ساکھ بڑی حد تک بحال کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ البتہ تحریک انصاف جو پوزیشن حاصل کرچکی ہے، وہ نقصان ن لیگ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ باقی تین صوبوں کی نسبت پنجاب حکومت زیادہ فعال اور متحرک نظر آتی رہی مگر ون مین شو کی خواہش نے یہاں بھی نقصان پہنچایا۔ سستی روٹی سکیم پراربوں روپے اڑائے گئے۔ ریپڈ بس پراجیکٹ کو پنجاب حکومت اپنی کامیابی گردانتی ہے، مگر اس پر ضرورت سے زیادہ مہنگا ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اسی طرح دانش سکولز کو ن لیگ اپنی کامیابی کہتی ہے مگر ماہرین کے خیال میں یہ سکول پراجیکٹس بھی غیر معمولی مہنگے ہیں۔ ن لیگ کی حکومت پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے جنوبی پنجاب کے فنڈز بھی لاہورپر خرچ کرڈالے۔ پنجاب کو تقسیم کرنے کے حوالے سے شروع میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ نے ن لیگ کو آئوٹ کلاس کردیا تاہم بعد میں انہوں نے اپنی پالیسی بدلی اور اب ان کے انتخابی منشور میں تین صوبوں کی بات شامل ہے۔ ن لیگ نے اپنے جوڑ توڑ، سیاسی چالوں اور میڈیا میں اپنے تعلقات کے باعث پانچ سالہ دور میں پہنچنے والے سیاسی نقصان کو بڑی حد تک ٹھیک کرلیا ہے، تاہم آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف سے نمٹنا اس کے لیے اصل چیلنج ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی قوتیں فروری 2008ء کے انتخابات میں کئی اہم جماعتوں نے حصہ نہیں لیا تھا۔ ان میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ تحریک انصاف نے تو تین برسوں میں بہت کچھ حاصل کیا۔ ایک فین کلب یا تانگہ پارٹی سے یک لخت چھلانگ کر وہ ایک بڑی اہم سیاسی جماعت بن گئی۔ ایک وقت میں عمران خان ایک تنہا سیاسی لیڈر نظر آتے تھے تاہم ان کا مضبوط مؤقف، ٹی وی چینلز پر جرأت مندانہ گفتگو اور تبدیلی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے انہیں بڑے پیمانے پر عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تیس اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان لاہور میں عمران خان کے جلسے نے ہر دوست دشمن کو حیران کردیا۔ انہوں نے لاکھوں کا مجمع اکٹھا کیا جن میں پڑھے لکھے لبرلز سے نوجوان اور مڈل کلاس سے لوئر کلاس تک کے لوگ شامل تھے۔ اس جلسے کے بعد تحریک انصاف کی جانب مختلف قد آور سیاسی شخصیتوں نے یلغار کی۔ ن لیگ اور ق لیگ سے کئی لوگ ٹوٹ کر ان کے ساتھ ملے۔ ان میں جنرل مشرف کے ساتھ رہنے والے بھی شامل تھے۔ ن لیگ اور میڈیا میں ان کے ہمدردوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور عمران کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی۔ ادھر تحریک انصاف میں پرانے لوگوں اور نئی شخصیات میں کشمکش شروع ہوگئی۔ عمران خان نے اس کا حل پارٹی انتخابات کی صورت میں سوچا۔ پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف نے اندرونی انتخابات میں الجھی رہی۔ اس کا اسے بڑا نقصان ہوا۔ ن لیگ اس دوران کہاں سے کہاں چلی گئی۔ تحریک انصاف سیاسی اتحاد بنا سکی نہ ہی وہ اپنی صفوں میں آنیوالوں کو سنبھال سکی۔ کئی لوگ واپس چلے گئے۔ آج تحریک انصاف اپنی قوت اور جیتنے والی جماعت کا وہ پہلے والا تاثر تو نہیں رکھتی مگر اس سے پنجاب اور پختون خواہ میں سرپرائز کی امید ضرور ہے۔ عمران خان البتہ پرامید ہیں کہ 23 مارچ کو وہ لاہور میں ایسا غیر معمولی جلسہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے بعد ملک بھر میں ان کے حق میں لہر پیدا ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایسا کچھ کرپاتے یا نہیں؟ قوم پرست ان 5 برسوں میں منقسم ہی رہے۔ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی قومی منظرنامے پر نمایاں تو رہے مگر سیاسی اعتبار سے وہ کوئی ہلچل مچانے میں ناکام رہے۔ کم و بیش یہی صورتحال عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کی ہے۔ اختر مینگل البتہ کچھ فعال ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگر انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور حالات سازگار رہے تو وہ وزیر اعلیٰ بھی بن سکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی بھی اہم پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔ جماعت اسلامی کچھ زیادہ حاصل نہ کرسکی۔ جماعت اسلامی کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بڑی جماعت اتحاد بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ہر ایک کو یہی خطرہ ہے کہ جماعت اپنے سائز سے زیادہ نشستیں مانگ لے گی۔ جماعت اسلامی نے جماعت الدعوہ، جے یو آئی س اور دیگر چھوٹے دینی دھڑوں کے ساتھ مل کر دفاع پاکستان کونسل بنائی۔ اسی کے پلیٹ فارم سے نیٹو سپلائی لائن بند رکھنے اور اینٹی امریکہ پالیسی بنانے کے حق میں بڑے جلسے بھی ہوئے۔ جماعت اسلامی مگر کوشش کے باوجود اسے سیاسی اتحاد بنانے میں ناکام رہی۔ اپنے اندرونی دبائو کے تحت وہ ایم ایم اے بھی بحال نہ کراسکی۔ جماعت اسلامی کی یہ بدقسمتی ہے کہ قومی سیاسی منظرنامے پر اس کی حیثیت پیروی کرنے والی جماعت کی ہے ، وہ کوئی نئی پالیسی بنانے اور قدم اٹھانے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی۔ جماعت اور دیگر دینی دھڑوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کی سیاست ایم کیو ایم اور اے این پی حکمران پیپلز پارٹی کی اہم ترین اتحادی رہیں۔ آخری سال میں مسلم لیگ ق بھی شامل ہوگئی جبکہ جے یو آئی (ف) پہلے تین سال مزے لینے کے بعد فرینڈلی اپوزیشن کرنے کے لیے حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔اے این پی کوایک کامیابی تو ملی کہ تاریخ میں پہلی بار وہ صوبے میں پانچ سال کے لئے حکومت کرتی رہی، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھوا کر اس نے ووٹروں سے کیا گیا ایک اہم وعدہ بھی پورا کیا،تاہم اے این پی کی کارکردگی بڑی ناقص رہی۔ صوبے میں کرپشن کے بہت سے سکینڈلز سامنے آئے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کا سب سے کرپٹ صوبہ خیبر پختون خواہ ہی تھا۔ اس دور میں ایزی لوڈ کی اصطلاح عام ہوئی۔ اے این پی کے کارکن بھی بہت حد تک مایوس رہے، صوبائی حکومت پانچ برسوں میں ایک بھی گہرا نقش ڈالنے میں ناکام رہی۔ کرپشن عام ہوئی، صوبائی محکموں کی کارکردگی بھی روبہ زوال رہی۔ ادھر کراچی میں اے این پی کو پہلی بار اہم حیثیت ملی ،مگر یہاں بھی بدنامی کے داغ پارٹی پر لگے، سپریم کورٹ کے کمنٹس کے مطابق کراچی میں بھتے لینے والوںمیں تینوں بڑی جماعتیں اے این پی سمیت شامل ہیں۔ مختلف پولز کے مطابق آئندہ انتخابات میں اے این پی اپنی تاریخ کی سب سے کمزور پوزیشن میں ہے۔ ایم کیو ایم کی اہم کامیابی پانچ سال تک سندھ حکومت کا حصہ بنے رہنا اور اپنے گورنر کو قائم رکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بڑا دھچکا ایم کیوایم کو یہ لگا کہ اس کی ایک اہم کمزوری ایکسپوز ہوئی کہ یہ جماعت اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ متحدہ کئی بار حکومت سے باہر آئی اور ہر بار بلند وبانگ دعوئوں کے باوجود دوبارہ سے واپس جا بیٹھی۔ اس سے ان کا مذاق اڑا اور میڈیا میں نت نئی پھبتیاں کسی گئیں۔ کراچی کے مسلسل بگڑتے حالات سے ایم کیوایم کے ووٹر بھی مضطرب ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی حلقہ بندیوں میں تبدیلی کی بات بھی متحدہ کے لئے اہم چیلنج ثابت ہوسکتی ہے کہ اس سے اس کا ووٹ بینک منتشر ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ ق زیادہ کمزور پوزیشن میں تھی، مگر پانچ سال اس پارٹی کا قائم رہ جانا بھی کسی کامیابی سے کم نہیں ۔مسلم لیگ ن کی یلغار اس نے بڑی ہمت سے برداشت کی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہو کر اس نے اپنے بکھرتے ارکان اسمبلی کو سنبھال لیا۔ اس وقت ق لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے ساتھ میدان میں اترنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کیلیے اصل چیلنج آنے والے انتخابات 
ہیں۔ ٭٭٭
http://mag.dunya.com.pk/index.php/dunya-spcial/172/2013-03-17

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

حج سکینڈل سے ایفیڈرین تک

بڑے کرپشن سکینڈل جنہوں نے پانچ سالہ حکومتی دور کو داغدار کر دیا
پاکستان میںآمریت کے درمیانی وقفوں کو جمہوریت سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک میں دس گیارہ برس پر محیط آمریت کے بعدجب سیاست دانوں کو اقتدار کی منتقلی عمل میں آتی ہے تو وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے رویوں میں آمرانہ انداز اس حد تک حاوی آچکا ہوتا ہے کہ جمہوریت اور آمریت میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ بھی ہوا جنہوں نے اگرچہ سیاسی محاذ پر کسی حد تک نوّے کی دہائی کی سیاست کو دہرانے سے اجتناب برتا لیکن کرپشن کے جن کو بوتل میں بند رکھنے سے قاصر رہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ اقتدار کے ایوانوں کے ان مکینوں کو یہ اقتدار اس قدر اچانک ملا تھا کہ انہوں نے اسے ’’غیب کی مدد‘‘ تصور کرتے ہوئے کرپشن کو اپنا موٹو بنا لیا، حتیٰ کہ حج جیسے مقدس مذہبی فریضے کو بھی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ تصور کر لیا گیا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو لوڈشیڈنگ ورثے میں ملی تھی لیکن اسے ختم کرنے کے لیے رینٹل پاور پلانٹس کی تنصیب نے ملکی سیاسی تاریخ میں کرپشن کے نئے باب کا اضافہ کیا۔ توانائی کے بحران کا سامنا کرنے والے ملک میں سی این جی سٹیشن کھولنے کے لیے دھرا دھر لائسنس جاری کیے جاتے رہے جس کے باعث بہت سے لوگوں کی ’’تجوریوں‘‘ کے منہ کھُل گئے جو لبالب بھر چکے ہیں اوروہ ریاستی اداروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایل پی جی اور ایل این جی کے معاملے میں بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ ایفیڈرین کی مقررہ کوٹے سے زائد مقدار منگوائی گئی جس کے باعث نہ صر ف ملک میںنیند آور ادویات کی پیداوار بڑھی بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ان کے استعمال میں بھی ہوشربا حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بعض رپورٹوں کی رو سے ہلاکت انگیز اثرات کے حامل کھانسی کے ٹائنو سیرپ میں بھی ایفی ڈرین کیمیکل شامل تھا۔ یوں اس کرپشن کے سماجی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ان حالات میں کسی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن ریاستی اداروں کے عدم تعاون کے باعث زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اگرچہ بعض مواقع پر سپریم کورٹ کی فعالیت پر اعتراضات کیے گئے اور کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا ہے لیکن معاملہ کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی دوسرا ادار ہ خود کو حقیقی معنوں میں ریاستی ستون ثابت نہیں کرسکا۔ اس کرپشن کے اثرات میڈیا پر بھی مرتب ہوئے اور نیب بھی محفوظ نہیں رہا۔ این ایل سی سکینڈل کے باعث حساس ادارے کے اعلیٰ افسروں پر انگلیاں اٹھیں۔ ان حالات میں سپریم کورٹ وہ واحد ادارہ تھا جس نے کرپشن کو روکنے کے لیے ’’گیٹ کیپر‘‘ کا کردار ادا کیا۔بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بیڈ گورننس اور کرپشن کے سکینڈلز کے باعث یاد رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اس سے سیاست دانوں کی نااہلی بھی ظاہرہوتی ہے۔ حج سکینڈل دسمبر 2010ء کے اوآخرمیں میڈیا پر حج انتظامات میں مبینہ بدعنوانی کی خبریں منظرِ عام پر آنا شروع ہوئیں تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک پانچ رکنی لارجربنچ تشکیل دے دیا ۔ حج کرپشن سکینڈل نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی کیوں کہ وفاقی حکومت کے بہت سے بڑے نام اس میں ملوث قرار دیے جا رہے تھے جن میں سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور سابق ڈائریکٹر جنرل حج رائو شکیل بھی شامل تھے۔ اس حوالے سے ایک سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے خط کو حوالے کے طورپر پیش کیا گیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حج کے دوران 35ہزار پاکستانی حاجیوں کے لیے حرم سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر 3350سعودی ریال میں رہائش گاہیں فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن وزارتِ حج کے اعلیٰ حکام نے حرم سے ساڑھے تین کلومیٹر دوروہی رہائش گاہیں 36سو سعودی ریال میں حاصل کیں ۔ سعودی شہزادے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس اس حوالے سے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو حج انتظامات میں مبینہ بد عنوانی میں ملوث افراد کی گرفتاری کا حکم دیا۔ عدالتی کارروائی کے دوران سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو بھی طلب کیا گیا تھا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وزارت میں کرپشن کے امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا حجم ماضی کی نسبت خاصا کم رہاہے۔ لیکن اس وقت ہلچل مچ گئی جب سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر اوراس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) سے منسلک اعظم سواتی نے حامد سعید کاظمی کو کرپشن کا ذمہ دار قرار دیا جس کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران اس وقت فیصلہ کن موڑ آیا جب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے یہ انکشاف کیا کہ حج انتظامات میں 16لاکھ سعودی ریال کی کرپشن ہوئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ رائو شکیل ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی میںتعیناتی کے دوران بھی کرپشن کے الزامات کی زد پر آئے تھے اور وزارتِ حج میں ان کی تعیناتی اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حکم پر عمل میں آئی تھی، یوں اس معاملے میں گیلانی خاندان بھی ملوث ہوتا ہوا نظر آیا۔ دوسری جانب سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی، رائو شکیل اور سعودی عرب میں عازمینِ حج کے لیے کرایے پر عمارتیں حاصل کرنے والے مرکزی کردار احمد فیض کے تعلقات ثابت ہوگئے۔بعدازاں 15مارچ 2011ء کو حامد سعید کاظمی سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ بہت سے چہروں سے نقاب اترے اور وزیراعظم کے صاحب زادے کے ایک قریبی دوست زین سکھیرا پر مبینہ بدعنوانی کا الزام عائد ہوا۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کا کردار بھی خاصا مشکوک رہا ، اور بہت سے افسروں کے بارے میں سپریم کورٹ اپنے ریمارکس میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہی۔ سابق وفاقی وزیرِ مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو 27اگست 2012ء کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ انہوں نے ضمانت پر رہائی کے بعد عدالت پر زبردست تنقید کی جس پر ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار احمد نے گزشتہ ماہ عدالت سے ان کی ضمانت منسوخ کرنے کی اپیل بھی کی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے رائو شکیل کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔ یہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے دور میں منظرِعام پر آنے والا کرپشن کا ایک اہم سکینڈل تھا جس نے حکومت کی ساکھ کو خاصا متاثر کیا۔ عدنان خواجہ کی او جی ڈی سی ایل کے سربراہ کے طور پر تعیناتی اگرچہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے سکینڈل منظرِ عام پر آتے رہے ہیں لیکن ستمبر 2010ء میں عدنان خواجہ کی مذکورہ ادارے کے ایم ڈی کے طور پر تعیناتی حیران کن تھی۔ وہ اس سے قبل نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے لیکن یہ شاید ان کی بدقسمتی تھی کہ سپریم کورٹ نے ان کی تعیناتی پر ازخود نوٹس لے لیا جس پر ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ عدنان خواجہ نہ صرف تعلیمی اعتبار سے اس عہدہ کے اہل نہیں تھے بلکہ 2009ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نیشنل احتساب بیورو (نیب) کے سزایافتہ ہونے کے باعث وہ اس عہدہ کے اہل نہیں رہے تھے۔ ان کی 10ماہ اور 22روز کی سزا باقی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا :’’ یہ حیران کن ہے کہ این آر او کو کالعدم قرار دینے کے باوجود عدنان خواجہ Nevtecکے سربراہ کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں جب کہ وہ دس برس تک کسی سرکاری عہدے پر تعینات نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ‘‘ رینٹل پاور کیس یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا سب سے زیادہ زیرِبحث رہنے والا کرپشن سکینڈل ہے ۔ اگرچہ مشرف دورِ حکومت میں لوڈشیڈنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کرایے پر بجلی گھروں کو لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن گیلانی حکومت بھی پیچھے نہیں رہی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے وزیرِپانی و بجلی کے دنوں سے یہ کیس حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے اور کئی مواقع پر ڈرامائی صورتِ حال بھی پیدا ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہرین نے کرایے کے بجلی گھروں کی تنصیب سے قبل ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ان سے ملکی توانائی کی ضروریات پورا نہیں ہو سکیں گی اور ان معاہدوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گالیکن حکامِ بالا نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ کرایے کے بجلی گھروں کا تصور سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے متعارف کروایا تھا اور ان کے دور میں کرایے کے دو بجلی گھروں کی تنصیب بھی عمل میں آئی۔ بہرحال پیپلز پارٹی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس حوالے سے باقاعدہ ایک پالیسی تشکیل دی اور اس وقت کے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت 2200میگاواٹ کی صلاحیت رکھنے والے 19بجلی گھرکرایے پر حاصل کر رہی ہے جو سال کے آخر تک پیداوار شروع کر دیں گے۔ اس وقت ملک کو چار ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا، لیکن ماہرین کی جانب سے اسے ناقابلِ عمل منصوبہ قرار دے دیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف نے ان اعتراضات کو یکسر نظرانداز کر دیااور اس حوالے سے معاہدے بھی کر ڈالے۔ اسی دوران یہ صورتِ حال اس وقت مزید پیچیدہ رُخ اختیار کر گئی جب آئینی طریقۂ کار کے تحت ان معاہدوں کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت کے وزیرِ خزانہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ شوکت ترین تھے جنہوں نے ان منصوبوں کے قابلِ عمل ہونے کے حوالے سے وزارتِ پانی و بجلی سے وضاحت بھی طلب کی اور جب ان کو اس حوالے سے ایک دستاویز پیش کی گئی تو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کرایے کے یہ بجلی گھر مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا نہیں کر پائیں گے کیوں کہ ان میں سے بعض 20سے 25برس پرانے ہیں اور اپنی کل صلاحیت کے مطابق پیداوار نہیں دے سکتے۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ بجلی کے مجوزہ نرخوں پر بھی اعتراض کیا گیا تھا اور خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اس قیمت پر بجلی خریدی جاتی ہے تو اس سے ملک میں بجلی کے نرخوں میں 30فی صد تک اضافہ ہوجائے گا۔ ماہرین نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کہا کہ وزارتِ پانی و بجلی نے اس بارے میں کوئی غور نہیں کیا کہ کرایے کے ان بجلی گھروں کو تیل یا گیس کس طرح فراہم کی جائے گی کیوں کہ بہت سے رینٹل پاور پلانٹس کی تنصیب ایسے مقامات پر عمل میں لائی جا رہی تھی جہاں پر گیس کی کوئی پائپ لائن نہیں تھی جب کہ آمد و رفت کا مناسب ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث تیل کی بروقت آمد و رفت بھی ممکن نہیں تھی۔ راجہ پرویز اشرف نے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا اور ان معاہدوں کا تکنیکی جائزہ لینے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک کے ماہرین کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا جنہوں نے شوکت ترین کے الزامات کو تکنیکی بنیادوں پر درست قرار دے دیا۔ چناں چہ اس وقت اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 19میں سے 6منصوبوں پر نظرثانی اور 5کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ اس دوران ان معاہدوں میں مبینہ بدعنوانی کے حوالے سے میڈیا میں خبریں آنے لگی تھیں اور تب سپریم کورٹ نے بجلی کے بحران اور کرایے کے بجلی گھروں میں بے ضابطگیوں پر ازخود نوٹس لے لیا جب کہ مسلم لیگ (ق) کے فیصل صالح حیات نے سپریم کورٹ میںدرخواست بھی جمع کروا دی۔ انہوں نے راجہ پرویز اشرف پر کروڑوں روپے رشوت لینے کا الزام عائد کیا تھا۔اس وقت تک ’’اب پچھتاوے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق حکومت 90ارب روپے کی سرمایہ کاری کر چکی تھی۔ بعدازاں مارچ 2012ء میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 9رینٹل پاور پلانٹس کے حکومت سے معاہدوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر منسوخ کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ یہ تمام معاہدے غیر شفاف، غیر قانونی اور شروع دن سے ہی غلط تھے، چناں چہ ان معاہدوں کو فوری طورپر ختم کیا جائے اور ذمہ دار افراد، جن میں راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے، کے خلاف کارروائی کی جائے جب کہ بعدازاں ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال دیا گیا ۔ اگلے چند ماہ کے دوران سیاسی منظرنامے میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد اقتدار کا ہما راجہ پرویز اشرف کے سر بیٹھا لیکن ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرِسماعت رہا ۔ اس دوران 15جنوری 2013ء کو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں16 نامزد ملزموں کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور ظاہر ہے کہ ان میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے لیکن وہ گرفتاری سے محفوظ رہے ۔ کچھ روز قبل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی ازسرِ نو تفتیش کے لیے شعیب سڈل کی زیرِنگرانی آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست دی ہے جس پر عدالت نے وزیراعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ اصالتاً یا وکالتاً عدالت کے روبرو پیش ہوکر اپنا مؤقف بیان کریں اور یہ کہ ان کے خلاف فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یوں یہ معاملہ ہنوز عدالت میں زیرِسماعت ہے اور یہ ممکن ہے کہ جب آپ زیرِنظر سطور پڑھ رہے ہوں تو اس حوالے سے صورتِ حال واضح ہوگئی ہو۔ توقیر صادق کرپشن سکینڈل توقیر صادق کی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین کے طور پر تعیناتی نہ صرف حیران کن تھی بلکہ میرٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ ایک غیر مصدقہ تعلیمی ادارے سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے توقیر صادق آئل اور گیس کی فیلڈ میں کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر کے برادرِ نسبتی ہونے کے باعث ان کو اس اہم ترین ادارے کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جس سے یہ واضح ہوگیا کہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران میرٹ کو کس قدر اہمیت دی ہے۔اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ توقیر صادق کی اوگرا سے وابستگی کے دوران سرکاری خزانے کو82ارب روپے کا نقصان پہنچا لیکن اس وقت بھی حکام کے کان پر جوںتک نہیں رینگی اور بالآخر ان کے خلاف اوگرا کے ایک ملازم محمد یاسین نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ توقیر صادق اس عہدہ کے اہل نہیں ہیں اور ان کی غلط پالیسیوں کے باعث قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ چناں چہ جسٹس شاکراللہ جان کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ قائم کر دیا گیا جس نے نومبر 2011ء کے اوآخر میں توقیر صادق کی تقرری کو کالعدم قرار دے دیا اور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ توقیر صادق کی تقرری قانون کے مطابق نہیں کی گئی، لہٰذا ان کے عہدے کو خالی تصور کیا جائے۔ عدالت نے ان سے تمام مراعات اور تنخواہ کی مد میں ادا کی گئی رقم بھی واپس لینے کا حکم دیا۔بعدازاں توقیر صادق دبئی فرار ہوگئے جس پر عدالتِ عظمیٰ نے خاصی برہمی کا اظہار کیا۔ ان کی گرفتاری کے لیے نیب کی ٹیم دبئی بھجوائی گئی جو مستقل طو رپر توقیر صادق کی وطن واپسی کے حوالے سے تاریخیں دیتی آرہی ہے۔چند روز قبل عدالت میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی اور ڈائریکٹر جنرل مڈل ایسٹ نصراللہ نے کہا کہ توقیر صادق کو واپس لانے کے لیے پیش رفت ہوئی تھی لیکن ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس معاملے کو وزیرِ خارجہ کی سطح پر اٹھایا جائے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’دل میں کچھ کالا‘‘ ضرور ہے۔ عدالت نے وزارتِ خارجہ کی رپورٹ کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ وزارتِ خارجہ اور امارات میں پاکستانی سفیر توقیر صادق کی مدد کر رہے ہیں۔ ایفیڈرین کیس یہ کیس بھی سیاسی منظرنامے پر خاصا ہلچل پیدا کرنے کا باعث بنا جس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے اور رکنِ قومی اسمبلی علی موسیٰ گیلانی اورمسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی کا نام بھی لیا گیا۔ اس کیس کا آغاز 2011ء میں اس وقت ہوا جب انسدادِ منشیات کے بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے کوٹے سے زیادہ ایفیڈرین درآمد کی گئی ۔ یہ ادویات میں استعمال کیا جانے والا کیمیکل ہے جو پاکستان کی دو نجی کمپنیوں کو مطلوبہ کوٹے سے کئی گنا زیادہ مقدار میں فراہم کیا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کیس کے باعث ہی راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن پائے جب کہ ان سے قبل وزارتِ عظمیٰ کے لیے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم شہاب الدین فیورٹ تھے لیکن یہ کیس ان کے گلے کا پھندا بن گیا کیوں کہ وہ اس وقت وفاقی وزیر صحت تھے جب ایفیڈرین درآمد کی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب سابق وزیر اعظم گیلانی کی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے ان کے نام پر اتفاق کیا تو بدقسمتی سے وہ گرفتاری سے بچتے پھر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیشنل انٹی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے پاکستان کے لیے ایفیڈرین کیمیکل کا سالانہ کوٹہ 22ہزار کلوگرام مقرر کر رکھا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر 31ہزار کلوگرام ایفیڈرین درآمد کی گئی اور یہ جواز پیش کیا گیا کہ اضافی 9ہزار کلو گرام ایفیڈرین عراق اور افغانستان کو ادویات کی تیاری کے لیے برآمد کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ چند ماہ بعد وزارتِ صحت کی جانب سے اسے ملک میں ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ 9ہزار کلوگرام ایفیڈرین دو کمپنیوں کو جاری کر دیا گیا جب کہ قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی کمپنی کو یہ کیمیکل پانچ سو کلوگرام سے زائد نہیں دیا جاسکتا۔ ایفیڈرین کیمیکل سانس لینے میں دشواری دور کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ادویات میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سکون آور ادویات کی تیاری اور خاص طور پر نشہ آور مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب کوٹہ سے زائد مقدار حاصل کرنے والی دونوں کمپنیاں انٹی نارکوٹکس فورس کی تحقیقات میں ان کے درست استعمال کے حوالے سے کسی قسم کے ٹھوس شواہد پیش کرنے سے قاصر رہیں۔ اس وقت اکتوبر 2011ء میں اے این ایف حکام نے اس حوالے سے راولپنڈی میں ایف آئی آر درج کروا دی۔ ایک بار پھر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا جب تفتیش کے دوران ان کے صاحب زادے موسیٰ گیلانی اور پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری ( یہ موصوف قبل ازیں سیکرٹری صحت رہے تھے اور ان کے دور میں ہی ایفیڈرین کا زائد کوٹہ درآمد کرکے دونوں کمپنیوں کو جاری کیا گیا تھا) اس کیس ملوث قرار دیے گئے جس پر اے این ایف حکام نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن گیلانی حکومت نے خود ہی اپنے لیے گڑھا کھود لیا اور میڈیا میں آنے والے شکوک و شبہات کو تقویت دینے کا باعث بنی جب انٹی نارکوٹکس فورس کے سربراہ میجر جنرل شکیل حسین کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی مدِت ملازمت ختم ہونے میں محض تین ہفتے باقی تھے اور ان کی جگہ نارکوٹکس ڈویژن کے سیکرٹری ظفرعباس کو اے این ایف کے سربراہ کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میںایک تین رکنی بنچ نے کی۔ دوسری جانب سابق ڈی جی صحت رشید جمعہ نے انٹی نارکوٹکس فورس میں بیانِ حلفی جمع کروایا جس میںا نہوں نے اعتراف کیا کہ ان پر علی موسیٰ گیلانی، مخدوم شہاب الدین اور خوشنود لاشاری کا دبائو تھا۔ اگرچہ ’’بڑے نام‘‘ ضمانت پر رہا ہوگئے لیکن ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی اور انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت کے جج ارشد تبسم نے علی موسیٰ گیلانی اور مخدوم شہاب الدین کو 22مارچ کو عدالت طلب کر رکھاہے۔ سٹیل مل کرپشن کیس پاکستان سٹیل ملز ملک کی اہم ترین اور سب سے بڑی سرکاری کارپوریشنز میں سے ایک ہے لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث یہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مشرف دورِ حکومت میں سٹیل ملز کی نجکاری کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوموٹو کارروائی کرتے ہوئے روک دیا تھا اور درحقیقت اس وقت ہی حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کا آغاز ہوا۔ اسی طرح جب 2009ء میں پاکستان سٹیل ملز میں 22ارب روپے کی بدعنوانی کی خبریں سامنے آئیں تو سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ازخود نوٹس لیا اور سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کو اس مقدمے کی تحقیقات کا حکم دیا۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ یہ ٹیم اربوں روپے کی بدعنوانی کو منظرِعام پر لائی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے سٹیل ملز کے سابق چیئرمین معین آفتاب شیخ کو عہدے سے برطرف کر دیا تھااور ان سے اس حوالے سے تحقیقات کی جاتی رہیں۔ دوسری جانب سینیٹ کے گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں سٹیل ملز میں کرپشن کا موضوع بھی زیرِبحث آیا اور یہ منکشف ہوا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سٹیل ملز کے 35اعلیٰ افسران کرپشن کے 20سے زیادہ کیسوں میں ملوث رہے ہیں۔ پیداوار کے وفاقی وزیر انور علی چیمہ نے سینٹ میں بتایا کہ چیئرمین پاکستان سٹیل ملز معین آفتاب شیخ کے خلاف کرپشن کے سب سے زیادہ چھ اور سابق ڈائریکٹر سمین اصغر کے خلاف آٹھ کیس رجسٹرڈ کیے گئے ہیں اور بیش تر مقدمات میں یہ دونوں ایک ساتھ ملوث پائے گئے ہیں۔ انہوں نے 40سے 50ہزار میگا ٹن کوئلہ اور دوسرا خام مال مختلف سپلائرز سے خاصے مہنگے داموں خریدا تھا۔ اسی طرح فروخت کے مختلف معاہدوں میں بھی گھپلے کیے۔ نعیم آفتاب شیخ کے خلاف ٹرائل جاری ہے۔ سمین اصغر چوں کہ وفاقی افسر ہیں، چناں چہ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تادیبی کارروائی کرنے کے لیے بھیجی جاچکی ہیں۔ اسی طرح آٹھ کمپنیوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ اس کیس میں وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک کی اچانک آمد بھی شکوک و شبہات کو تقویت دینے کا باعث بنی جب انہوں نے سٹیل ملز کرپشن کیس کی تفتیش کرنے والے ایف آئی اے کے سابق ڈی جی طارق کھوسہ کا تبادلہ کر دیا جس پران کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا اور چند روز قبل ہی انہوں نے اس پر عدالت سے غیر مشروط طو رپر معافی مانگی ہے۔یوں یہ کیس بھی کسی حد تک حکومت اور عدلیہ میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری کشمکش کا ایک مظہر ہے۔ ایل این جی سکینڈل لیکوڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کا 46ملین ڈالرز کا درآمدی ٹھیکہ دینے کے مراحل عجلت سے طے کیے جانے اور شفافیت کے فقدان کے باعث یہ معاملہ خاصا مشکوک ہوگیا جس پر چند روز قبل سپریم کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کر دیا ۔ وزارتِ پٹرولیم کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے عدالت کے روبرو مؤقف پیش کیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے معاملہ کابینہ میں لے جانے کا کہا تھااور اس حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ بروقت حکمِ امتناعی جاری کرکے کرپشن کے آگے بندھ باندھنے میں کامیاب رہی ہے۔ قبل ازیں مارچ 2010ء میں بھی اس نوعیت کا ایک سکینڈل منظرعام پر آیا تھا جب20ارب ڈالرز مالیت کی 3.5ملین ٹن ایل این جی کا درآمدی ٹھیکہ دینے کی ڈیل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی تھی اور اس کا کنٹریکٹ ایک فرانسیسی کمپنی کو جاری کیا گیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو نظرانداز کر دیا تھا جنہوں نے اس سے کم بولی لگائی تھی۔ حتیٰ کہ سابق وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین( وہ قبل ازیں فروری2010ء میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے تھے) بھی اس سارے معاملے سے لاعلم تھے اور جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے اس ملٹی بلین ڈالرکیس پر ازخود نوٹس لیا تو سابق وفاقی وزیر خزانہ نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ’’ ان سے غلط فیصلہ کروایا گیا تھا ، چناں چہ عدالتِ عظمیٰ اب حکومت کو ہدایت دے کہ وہ اس معاہدے کا نئے سرے سے جائزہ لے اور عالمی پارٹیوں سے بات چیت کرکے یہ کنٹریکٹ قواعد و ضوابط کے مطابق دوبارہ ایوارڈ کرے تاکہ حکومت کو اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جا سکے‘‘۔گیلانی کابینہ کے سابق رکن کے اس اعتراف کے باوجود اس وقت کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم نوید قمر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور ان کو کلین چٹ دے دی گئی۔ ناقدین کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران سپریم کورٹ نے غیر معمولی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن مذکورہ بالا چند مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ صرف کرپشن بلکہ بیڈ گورننس کے تمام تر ریکارڈ توڑے بلکہ بدترین مثالیں قائم کیں۔ سپریم کورٹ نے ہر موقع پر کبھی ازخود نوٹس لیتے ہوئے اور کبھی اپنے فیصلوں کے ذریعے اس کرپشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔چند روز قبل روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سابق وزیرا عظم گیلانی نے وفاقی بیوروکریسی کو نوازنے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ایسے افسروں کو بھی پلاٹ الاٹ کیے جو کہ اس کے مجاز نہیں تھے۔ سابق وزیراعظم گیلانی کے میڈیا کوارڈینیٹر خرم رسول بھی کرپشن الزامات سے نہیں بچ پائے جن پر ایل پی جی کوٹہ کی مد میں 630ملین کے فراڈ کا الزام عائد کیا گیاتھا۔ سپریم کورٹ نے بروقت نوٹس لیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں تین رکنی بنچ نے ایف آئی اے حکام کو خرم رسول کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر خرم رسول پر الزامات درست ثابت ہوجاتے ہیں تو یہ ملک کا سب سے بڑا بحران ہوگا کہ وزیراعظم اور ان کے سیکرٹریوں پر کرپشن کے الزامات عائد ہوں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کرپشن کے بارے میں اعلیٰ حکام کو معلوم ہو لیکن اس سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے جس کا اظہار سپریم کورٹ نے بارہا اپنے فیصلوں کے ذریعے کیا ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا جمہوری سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والی حکومت خود کو اس نوعیت کے الزامات سے دور رکھے گی۔ ٭٭٭

http://mag.dunya.com.pk/index.php/dunya-spcial/173/2013-03-17

Read more:

<<Free-eBooks Click here>>>