Pages

سزا یافتہ مجرم… !! Convicted Primeminister

.سید یوسف رضا گیلانی کو سزا سنادی گئی۔ سات رکنی بینچ نے اُنہیں توہین عدالت کا مرتکب پایا۔ حکم جاری ہوا کہ وہ عدالت کے برخاست ہونے تک قید میں رہیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے عزت مآب جج صاحبان فیصلہ سنانے کے بعد اپنے چیمبرز کو رخصت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم کو ملنے والی سزا تمام ہوگئی۔ لیکن اب یوسف رضا گیلانی وہ نہ تھے جو کمرہ عدالت میں داخل ہوتے وقت تھے۔ تب ان پر ایک الزام تھا۔ یہ الزام کہ بطور چیف ایگزیکٹو انہوں نے عدالت کا ایک واضح فیصلہ ماننے میں کوتاہی کی۔ یہ کہ انہوں نے شعوری طور پر عدالت کا مضحکہ اڑایا۔ یہ کہ بار بار کی تلقین کے باوجود انہوں نے عدلیہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا۔ آج صبح عدالت کے کمرے میں قدم دھرنے تک وہ محض ملزم ہی تھے لیکن چند لمحوں بعد، اس کمرے کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہوئے وہ ملزم نہیں، ایک سزا یافتہ مجرم تھے۔ وہ طویل عرصے تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے گلی ڈنڈا کھیلتے رہے۔ ان کی کابینہ کے وزراء اُن کے ایما پر عدلیہ کے خلاف جا بجا سرکس لگاتے رہے۔ جس دن نظر ثانی کی درخواست مسترد ہوئی اس دن پی آئی دی کے اندر ایک شعلہ فشاں پریس کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ گز گز بھر لمبی زبانیں رکھنے والوں نے جج صاحبان کے شجرہ ہائے نسب بھی ادھیڑ ڈالے۔ اس نوع کی دشنام طرازی ہوئی کہ زمیں و آسمان لرز اٹھے۔ 16/جنوری سے توہین عدالت کے مقدمے کا دفتر کھلا تو الف لیلیٰ کی ایک اور کہانی شروع ہوگئی۔ ”خط تو لکھنا ہی پڑے گا“ کے جملے سے آئینی دانش کی نئی رفعتیں پانے والے چوہدری اعتزاز احسن نے قلابازیوں کا ایسا تماشا لگایا کہ بڑے بڑے بازیگر دانتوں میں انگلیاں دابے رہ گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ آئینی سقراط کی عمروکالت کا سب سے کم مایہ دور تھا جب اُنہیں خود پتہ نہیں تھا کہ اُن کی زبان سے کیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور انتہائے جنون میں وہ ستاروں پہ کمندڈالنے کے لئے کس طرح ایڑیاں اٹھا اٹھا کر لپک رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے، استغاثہ کا معاون ہونے کی حیثیت سے ایک متوازن رویہ اختیار کیا، تو ایک سابق پی سی او جج کو‘ اٹارنی جنرل کا منصب سونپ کر عدالت میں لاکھڑا کیا گیا۔ اخباری رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے سات رکنی بینچ کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تضحیک و تمسخر کی آخری حدوں تک پہنچ گئے۔ بلاشبہ 16/مارچ 2009ء سے لے کر اب تک اگر اس حکومت کے عدلیہ کے بارے میں طرزعمل کا مشاہدہ کیا جائے تو ہماری تاریخ کی ایک ایسی فرد سیاہ تیار ہوتی ہے جو کسی بھی جمہوریت کے لئے سرمایہ اعزاز نہیں ہوسکتی۔

وزیراعظم نے ایک حلف اٹھا رکھا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے حلف سے استواری کے بجائے‘ اپنی سیاسی قیادت سے وفاداری کو ترجیح دی۔ یہ اُن کے اپنے حلف کی واضح خلاف ورزی تھی۔ اُن کے حلف میں کسی قبر یا کسی شخصیت سے وفاداری نباہنے کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں۔ لیکن وہ آئین، اپنی منصبی ذمہ داریوں، اپنے حلف اور عدالتی احترام کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پارٹی قیادت کی چوکھٹ پرسجدہ ریز ہوگئے۔ انہیں زعم باطل یہ رہا کہ جنس کوچہ وبازار جیسی یہ سوچ اور سطحی قسم کا یہ جیالاپن اُن کا قد کاٹھ بڑھارہا ہے لیکن عملاً وہ ایک خودشکن شخص کی طرح مسلسل اپنے وجود کی قاشیں کاٹ رہے تھے۔ دراصل مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ اگر وہ سوئس حکام کو خط لکھتے تو اُسی دن منصب سے فارغ کردیئے جاتے اور صدر زرداری کا نامزد کردہ نیا شخص حلف اٹھالیتا۔ اپنے عہدے پر قائم رہنے کے لئے لازم تھا کہ وہ عدالت کا نہیں، زرداری صاحب کا حکم مانیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کوئی بڑا شخص ایک بڑا فیصلہ کرتا ہے اور نتائج و عواقب سے بے نیاز ہوکر تاریخ کے معطر نگارخانے میں اپنی تصویر آویزاں کرنے کے لئے حد سودوزیاں سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ اگر سید زادہ ملتان عہدے کے لالچ اور اپنی بے کراں کرپشن کے تحفظ کے سبب صدر زرداری سے وفاداری کی بکل مارلینے کی بجائے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہتے کہ میں نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ کرلیا ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کے عین مطابق سوئس حکام کو خط لکھ رہا ہوں تو پارٹی کے عتاب کا نشانہ بننے اور منصب سے محروم ہوجانے کے باوجود تاریخ انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی۔ ایک راستہ اور بھی تھا۔ وہ فرماتے کہ ایک طرف اپنی سیاسی قیادت سے اٹوٹ وفاداری کا سوال ہے اور دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی تابعداری کا مسئلہ۔ پی پی پی کا سپاہی ہونے کے ناتے میں سوئس حکام کو خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے حلف کی پاسداری بھی مجھ پہ لازم ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ توہین عدالت کا ارتکاب کرنے والی بے توقیر فہرست کا حصہ بنوں۔ سو اپنی قیادت سے بے وفائی اور عدلیہ کی توہین، دونوں سے بچنے کے لئے میرے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر، عام بینچوں پہ بیٹھ جاؤں۔ سید زادہ ملتان نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔ انہوں نے ایک بے ننگ و نام اور روز اول ہی سے ہاری ہوئی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور آج وہ سزا یافتہ مجرم ہیں۔عدالت سے نکلتے ہوئے انہوں نے ہاتھ لہرانے کی کوشش کی جوڈوبتے جہاز کے بادبانوں کی طرح لرز رہے تھے۔ ان کے ہونٹوں پہ ایک خزاں رسیدہ مسکراہٹ تھی اور چہرہ تیز دھوپ میں جھلسی ہوئی پت جھڑ کی طرح پیلا پڑرہا تھا۔ اُن کی بدن بولی ایسی شکست کا نوحہ تھی جس میں تسکین قلب و جاں کا ذرا ساسامان بھی نہیں ہوتا۔ 

بڑے خطرے میں ہے حسن گلستان ہم نہ کہتے تھے

چمن تک آگئی دیوار زنداں، ہم نہ کہتے تھے 

یوسف رضا گیلانی کی گٹھڑی میں اب کچھ نہیں کہ وہ عوام میں جاکر سراونچا کرکے کھڑے ہوسکیں۔ وہ ہزار جتن کریں، ہیرو بن سکتے ہیں، نہ شہید۔ اپنی اور اپنے خاندان کی لامحدود کرپشن کے تحفظ کے لئے عہدے سے چمٹے رہنے کے لئے آئین کی حرمت، قانون کی تکریم اور منصب کی تعظیم کو خاک میں ملا دینے والے کسی شخص کے لئے تاریخ کی معتبر کتاب میں کوئی جگہ نہیں۔ اچھا ہوتا کہ سزایافتہ مجرم کے طور پر سپریم کورٹ کی عمارت کی پہلی سیڑھی اترتے وقت وہ میڈیا سے کہہ دیتے کہ ”میں مستعفی ہورہا ہوں“۔ لیکن اُن کی زبانوں سے ایسے جملے چھین لئے جاتے ہیں جن کے مقدر میں رسوائیاں لکھ دی گئی ہوں۔

پیپلزپارٹی کا نامہٴ اعمال بانجھ ہے۔ وہ انتخابات کے لئے کسی شہادت کی آرزومند تھی۔ یوسف رضا گیلانی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسلام آباد کے باخبر صحافی جانتے ہیں کہ نہ پارٹی میں گیلانی صاحب کا کوئی مضبوط حلقہ ہے نہ ایوان صدر کے کسی طاق میں اُن کی محبوبیت کا کوئی چراغ روشن ہے۔ صدر زرداری کی حکمت عملی یہ ہے کہ قربان گاہ میں پڑا بکرا ذبح ہو جانے کے بعد بھی تڑپتا پھڑکتا رہے، اس کا لہو ہولے ہولے بہتا رہے اور وہ اس فضا کو پارٹی کی انتخابی حکمت عملی میں ڈھالتے رہیں۔ ”وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا“ کے مصداق ذبح ہوجانے والے وزیراعظم کی قربانی کا سارا ثواب صدر زرداری سمیٹنا چاہتے ہیں۔ سو اس معاملے کو لٹکایا جائے گا۔ بال کی کھال اتاری جائے گی۔ قانونی موشگافیوں اور آئینی نزاکتوں کا ایک دور چلے گا۔ سڑکیں آباد کرنے کے جتن کئے جائیں گے۔ ایک بحران اٹھانے کا اہتمام ہوگا لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ لاش کو ممی بناکر محفوظ بھی کرلیا جائے تو وہ لاش ہی ہوتی ہے۔ ایک سزا یافتہ مجرم، اگر وزیراعظم کے منصب سے چمٹا رہتا ہے تو شاید آئینی شاطر اور قانونی جادوگر اس کا جواز ڈھونڈھ لیں، لیکن ہماری کم نصیب تاریخ اگر ایک سزا یافتہ مجرم کی وزارت عظمیٰ کے داغ ندامت سے بچ سکے تو اچھا ہوگا۔

سزا یافتہ مجرم… !!...نقش خیال…عرفان صدیقی

http://jang.net/urdu/details.asp?nid=616026
ایک تاریخ کا فیصلہ ہے اور ایک حکمران طبقے کا ۔ تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہی معاشرے نشوونما پاتے ہیں جہاں عدل کی حکمرانی ہوتی ہے ، جہاں کمزور انصاف کی امید کر سکتا ہے اور طاقتور سزا کے خوف سے دوچار ہوتا ہے ۔ حکمران طبقے کا  ....
پنجاب میں ہی کیا سارے پاکستان میں”جمعرات“ کو پیروں فقیروں کا دن سمجھا جاتا ہے اوراس روز عام طور پر لوگ مزاروں پرحاضری دیتے او ر نوافل ادا کرکے دعائیں یا منتیں مانگتے ہیں۔ جمعرات کے دن ہی پاکستان کے پیر اور گدی نشین اور وزیراعظم کو توہین عدالت کی  ....
کارنویل کے ”لانگ پارلیمنٹ “ سے خطاب کے الفاظ وزیر ِ اعظم پاکستان کے لیے بھی موزوں ہیں۔ چند ایک تقاریر سننے کے بعد کارنویل اکتا گیا اور کہا․․․” تم لوگ اپنے کسی فائدے کے لیے کافی دیر سے یہاں براجمان تھے۔ اب یہاں سے چلے جائیں․․․خدا کے لیے  ....