Pages

Which Revolution you talk about? کس انقلاب کی بات کرتے ہو


Shareکس انقلاب کی بات کرتے ہو...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میں نہ عمران خان کو جانتا ہوں اور نہ ہی اقتدار کی راہداریوں میں کسی عہدے کا امیدوار ہوں۔ عہدے بہت دیکھ لئے اب تو فقط بخشش کی تمنا ہے اور اسی تمنا کا تقاضا ہے کہ نہ قلم گروی رکھا جائے نہ ذہین نوٹوں یا عہدوں کے عوض بیچا جائے اور نہ کسی سیاستدان کا قلمی مزارعہ بنا جائے۔ رضا صرف اپنے رب کی اور خدمت قوم کی اپنا ماٹو(Motto) ہو تو شاید بیڑہ پار ہوجائے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں عمران کے ووٹر پاتا ہوں۔ اس کی مقبولیت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جوں جوں اس کے مخالفین اس پر ایجنسیوں کی حمایت، آئی ایس آئی کی سرپرستی، امریکی سازش وغیرہ وغیرہ کے الزامات لگاتے ہیں۔ اس کی جائیداد کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کیا اس نے یہ جائیداد حکومت میں رہ کر ملکی خزانہ لوٹ کر بنائی؟کیا اس نے بنکوں کے قرضے ہضم کئے؟ کیا اس نے منی لانڈرنگ کی؟ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سارے کام قانون کے مطابق کئے اور پورا ٹیکس ادا کیا ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں عام محفلوں اور نوجوانوں سے یہ باتیں سن کرمحسوس کرتا ہوں کہ لوگ آزمائی ہوئی قیادت سے نجات چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب دانشور عمران خان کے انقلاب کے بخیے ادھیڑتے ہیں اس کے دعوؤں کا تمسخر اڑاتے ہیں تو میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ میں نے گزشتہ دہائیوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے والوں کے ساتھ یہی ہوتے دیکھا ہے جو طبقہ تبدیلی سے خوفزدہ ہوتا ہے دراصل وہ ”اسٹیٹس کو“ کا حامی ہوتا ہے ۔ میں نہیں جانتا عمران کس انقلاب کی بات کرتا ہے کیونکہ یہاں ایک انقلاب کی گنجائش تھی اور وہ پندرہ اگست 1947ء کو آچکا۔ آج کل تجزیہ نگار عمران کے انقلاب کا پوسٹ مارٹم کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام اس انقلاب سے کیا مراد لیتے ہیں؟ میرے مشاہدے کے مطابق عوام کی انقلاب سے مراد سیاسی تبدیلی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس ملک کو قدرے ایماندار، محنتی اور اہل قیادت مل جائے تو پاکستان میں انقلاب آجائے گا ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایماندار اور اہل قیادت ہی ملک میں امن بحال کرسکتی ہے، صنعتی اور زرعی شعبوں کی کارکردگی شاندار بنا سکتی ہے۔ خسارے میں جانے والی قومی اداروں کو منافع بخش بناسکتی ہے۔ قومی لیٹروں کا محاسبہ کرسکتی ہے اور عام شہریوں کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ ایک محفل میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا” سر کیا ہماری روایتی اور آموزہ قیادت میں کوئی لیڈر کیمرج آکسفورڈ کا گریجویٹ ہے؟ میں سوچنے لگا تو وہ فوراً بولا پھر یہ حضرات عمران کو نااہلیت کا طعنہ کیوں دیتے ہیں وہ آکسفورڈ کا گریجویٹ ہے اور وہ ہی ملکی حالات بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ہم روایتی سیاستدانوں کو آزما چکے ہیں، آخر ہم کب تک انہی سوراخوں سے ڈسے جاتے رہیں گے…“ میں اس کی باتیں سن رہا تھا اور محسوس کررہا تھا کہ یہی انقلاب ہے بھلا اور انقلاب کیا ہوگا؟