Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

خلافت ، شرعیت ، دہشت گردی Caliphate

دنیا بھر کے مسلمانوں میں "خلافت" کا nostalgia (پرانی یادوں) عظمت رفتہ کی یاد دلاتا رھتا ہے ، جب مسلمانوں کی اس وقت کی دنیا پر حکمرانی تھی، سائنس، ٹیکنولوجی، تہذیب و تمدن میں ان کا ڈنکا بجتا تھا اور وہ وقت کی عظیم سپر پاور تھے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین کا ٣٠ سالہ دور گولڈن پیریڈ تھا- پھر بنو امیہ کی قائم کردہ مسلمان حکومت سپین اور مراکش سے لےکر وسطی ایشیا تک اور وہاں سے لے کر موجودہ پاکستان کے جنوبی حصوں تک پھیل چکی تھیں اور یہ اتنی بڑی حکومت صرف ایک خلیفہ کے تابع تھی۔  بنو امیہ کے بعد عباسیوں کا دور آیا جس کا اختتام بارہویں صدی عیسوی میں منگولوں کے ہاتھ ہوا جنہوں نے بتدریج اسلام کو اپنا لیا- کئی حکمران گزرے مگر عثمانی ترکوں کا دور نوے سال قبل اختتام کو پہنچا-
مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی خود مختاری ہمیشہ سے مسلمانوں میں خلافت کی کشش کا بڑا سبب ہے۔ اسلامی تاریخ کا سنہری دورعلم و ادب اور تہذیبی ترقی کا دور تھا۔ اسی لیئے مسلمانوں کے لیے خلافت پر مبنی ایک مسلمان حکومت کے خیال میں اب بھی بہت کشش ہے۔ خلافت میں اتنی کشش کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ خلافت مسلمانوں کو ان کی عظمت کی یاد دلاتی ہے۔
موجودہ ظلم و جبر، ناانصافی اورکرپشن کے دورمیں بہت سے افراد اورگروہ ان مصیبتوں اور برائیوں کا حل خلافت قائم  کرنے میں سمجھتے ہیں- جبکہ دوسرے لوگوں کے خیال میں قدیم مذہی بنیاد پر سسٹم کی بجائے موجودہ دور کے جمہوری سسٹم کو ریفارم کرکہ مطلوبہ مقاصد حاصل کیئے جا سکتے ہیں- ایک تیسری کیٹیگری ان لوگوں کی ہے جو جدید دور کے جمہوری نظام کو اسلامی شریعت کے ساتھ ملا کر دونوں نظاموں کے فوائد حاصل کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں-

خلافت کے نعرہ کی کشش جن مایوس مسلمانوں کی توجہ مبذول کرتی ہے اس میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوان مرد وخواتین شامل ہیں- خلافت کے دعوی دارعام طور پر نامعلوم لوگ ہوتے ہیں جن کا مذہبی علم بہت محدود ہوتا ہے- ان لوگوں کے ماضی اورساکھ کابھی بہت کم علم ہوتا ہے- وہ خلافت قائم کرنے کے لیئے جہاد کا مقدس نام استعمال کرتے ہیں- پھر وہ اسلامی خلافت قائم کرنے کی کوشش میں دہشت گردی اور تباہی کے راستہ پر چل نکلتے ہیں-اسلامی دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں (دہشت گردوں کے تقریبا خاتمہ  کے با وجود) سوشل میڈیا پراس نعرہ کی گونج سنائی دیتی ہے جو مسلمانوں کے لیئےباعث کشش ہے-

اس لیئے ضروری ہے کہ خلافت کے نظریہ کو قرآن و سنت، اسلامی تاریخ اور موجودہ پولیٹیکل سسٹمز کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے-
قیام پاکستان کی وجوہات ہم سب کو معلوم ہیں، کوئی پاکستانی مسلمان نفاذ شریعت سے انکار نہیں کر سکتا- یھاں مقصد خلافت، شریعت اور جمہوریت کا موازنہ کرنا نہیں اور نہ ہی یہ ثابت کرنا ہے کہ خدانخواستہ شریعت کوئی پرانا فرسودہ نظام ہے جو اس دور میں قابل عمل نہیں- اسلامی شریعت اور قوانین ابدی ہیں ان سے ہر دوراور حالات میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے مگر شریعت کو غیر شریعی طریقوں سے نافذ کرنا بہت بڑی غلطی،گمراہی اور تباہی کا سبب ہو سکتا ہے- اس سلسلے میں کچھ  بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش سے درست سمت کا تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے:
1.خلافت کیا ہے؟
2. قرآن میں خلافت کا کیا مطلب ہے؟
3.کیا خلافت اور شرعی نظام میں فرق ہے؟
4.کیا خلافت ایک مستقل اسلامی سیاسی نظام حکومت ہے؟
5.کیا خلافت قائم کرنا اسلامی احکام میں شامل ہے؟
6.کیا خلافت قائم کرنے کے لیے حکمرانوں کا خروج اور جنگ و جدل جایئز ہے؟
7.خلافت اور اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
8. خلافت راشدہ کے بعد خلافت کی تاریخ کا ہے؟
9.مسلمان حکمران (سلطان، بادشاہ ، ملک یا کوئی اور نام ) خلیفہ ہو سکتا ہے؟
10. پاکستان میں خلافت کی تنظیموں کے طریقه کا تجزیہ؟
11. شرعی نظام قائم کرنے کا  ممکنہ شرعی طریقه  اورمسلمانوں کے آپشنز؟

اسلام اور سیاست:
قرآن اور سنت میں کوئی مخصوص سیاسی نظام تجویز نہیں کیا جس کی پیروی مسلمانوں پر لازم ہوتی بلکہ  یہ معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے-  تاہم نظام حکومت کے لیے وسیع ہدایات اور اصولوں کو بیان کر دیا جس کے مطابق شوری (مشاورت) اور عدل و انصاف سے اسلامی  شرعی حکومت کام کر سکتی ہے- یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اپنا  جانشین نامزد نہیں کیا، اور چارخلفاءراشدین میں سے ہر ایک کا انتخاب مختلف انداز میں ہوا- یہ طریقه مسلمانوں کے لیے ایک لچک دار سیاسی نظام کی بنیاد مہیا کرتا ہے-

Shari'ah, Democracy, Khilafah - Conflict or Compatible?
Democracy has taken a number of forms, both in theory and practice. Some varieties of democracy provide better representation and more freedom for their citizens than others. Justice, tolerance, equity and moderation is hallmark of Islam, which accords great value to human life, whether Muslims and non Muslims alike. The so called corrupt and incompetent democratic governments in Muslim lands have shaken the confidence of people of in democracy. Hence disillusioned people blame democracy for all the ills, some demanding military dictatorship or Caliphate [Khilafa] while others talk of Shari’a to resolve injustice, corruption and other ills plaguing society. Exploiting the religious sentiments of the simple people, proponents of Caliphate declare democracy as un-Islamic or Haram [forbidden] and Kufr [disbelief]. Establishment of one global Caliphate is their final objective. Verses from Quran and Hadith are quoted to advance their arguments. While there are many reputed Islamic scholars who consider democracy with in bounds of Shari’a as a good system for Muslims. They also think that instead of copying a particular Western democratic system, each Muslim society should adopt a reformed democratic system suitable to its people, faith, culture and environments. The diverse views demand an objective analysis. Keep reading >>>>
خلافت:
لفظ ’خلیفہ` کا مطلب نمائندہ یا نائب ہے اور قرآن اس لفظ کو حکومت کے معنی میں بھی استعمال کرتا ہے۔ حضرت آدم، حضرت داؤد (38:26) کو قرآن زمین پراللہ کا خلیفہ کہتا ہے، اور حضرت سلیمان کو ملک (بادشاہ)۔ 632 عیسوی میں پیغمبر اسلام حضرت محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ لقب مسلمان حکمرانوں کے حصے میں آ گیا، پہلے چار خلفاء" راشدین خلیفہ"(رضی اللہ )  بنے۔ اسلامی دور کی پہلی تین دہائیاں چار "خلفائے راشدین" کے ادوار پر مشتمل ہیں-
مشہور مصنف رضا پینکہرسٹ کے مطابق بھی چاروں خلفائے راشدین کا تقرر عوامی رضامندی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ رضا پینکہرسٹ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں یہ نظریہ مسلم ہو گیا تھا کہ خلیفہ ’عوام کی مرضی سے مقرر ہوگا اور یوں مقرر کیے جانے والے خلیفہ پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی رعایا کی بھلائی کے کام کرے، اسلامی قوانین نافذ کرے اور یقینی بنائے کہ ان قوانین پر عمل بھی ہو۔‘ رضا پینکہرسٹ کا کہنا ہے کہ ’سچا خلیفہ‘ کبھی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔
پیغمبرِ اسلام کے انتقال کے 70 برس بعد بنو امیہ اور عباسیوں کی قائم کردہ مسلمان حکومت سپین اور مراکش سے لےکر وسطی ایشیا تک اور وہاں سے لے کر موجودہ پاکستان کے جنوبی حصوں تک پھیل چکی تھی اور یہ اتنی بڑی حکومت صرف ایک خلیفہ کے تابع تھی۔ تاریخ دان پروفیسر ہیو کینیڈی کہتے ہیں کہ ’یہی وہ مسلمانوں کا اتحاد تھا اور ان کی خود مختاری تھی جو مسلمانوں میں خلافت کی کشش کا بڑا سبب ہے۔ اسلامی تاریخ کا سنہری دور ادب اور تہذیبی ترقی کا دور تھا۔ اسی لیئے مسلمانوں کے لیے خلافت پر مبنی ایک مسلمان حکومت کے خیال میں اب بھی بہت کشش ہے۔ خلافت میں اتنی کشش کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ خلافت مسلمانوں کو ان کی عظمت کی یاد دلاتی ہے۔
لیکن بنو امیہ اور بعد میں عباسیوں کی سلطنت اس قدر تیزی سے پھیلی کے بعد میں آنے والے سلاطین کے لیے اتنی بڑی ریاست کو یکجا رکھنا مشکل ہو گیا۔ جوں جوں سیاسی قوت تقسیم ہوتی گئی، نہ صرف مسلمانوں کو نئے نئے سیاسی امتحانوں کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ خلافت کے نظریے کی مذہبی بنیادیں بھی کمزور ہوتی گئیں۔ اتحاد میں پوشیدہ طاقت اصل میں خلافت کے نظریے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، لیکن دنیا نے دیکھا کہ محض ایک سو سال کے اندر اندر مسلمان دنیا میں متوازی خلافتیں منظرعام پرآ گئیں اور خلافت ریاستوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گئی۔یہاں تک کہ بعض اوقات متوازی خلافتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا شروع ہو گئیں۔
آخری خلافت، خلافت عثمانیہ تھی جسے ختم ہوئے اس موسمِ بہار میں 90 برس ہو چکے ہیں۔ متحدہ انڈیا میں "خلافت موومنٹ" مسلمانوں کی اس نظریہ سے محبت کی مثال ہے جو وقت کے ساتھ ابھی بھی قائم ہے-  جب سنہ 2006 میں گیلپ کے ایک جائزے میں مصر، مراکش، انڈونیشیا اور پاکستان کے مسلمانوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے دو تہائی نے اس خیال کی حمایت کی تھی کہ ’تمام اسلامی ممالک‘ کو ایک نئی خلافت کے پرچم تلے متحد ہو جانا چاہیے-
مگرووٹ ڈالتے وقت عوام مذہبی سیاسی جماعتوں کواھمیت نہیں دیتے:
عوام غیر مذہبی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں جس میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی جیسی سیکولر، لبرل پارٹیاں شامل ہیں- اس کی وجوہات پر غور کی ضرورت ہے:
1.کیا عوام صرف ظاہری طور پر خلافت اور اسلامی شرعی نظام کی بات کرتے ہیں مگر اس کے نفاذ اور قبولیت میں پرخلوص نہیں؟
2. کیا عوام کومذہی سیاسی لیڈرشپ پر اعتماد نہیں؟
3.کیا الیکشن کا سسٹم دھوکے اور فراڈ پر مشتمل ہے؟
سید احمد شہید بریلوی کی تحریک جہاد ، سرحد میں نظام شرعیت اور خلافت کا قیام اور خاتمہ:
تقریبا دو صدی قبل سید احمد شہید بریلوی(1786-1831)نے تحریک جہاد شروع کی- 1830 میں پشاور پر سید احمد کا قبضہ ہوگیا۔  پشاور کی فتح کے بعد انہوں نےسرحد میں شرعی خلافت قائم کی اور شریعت کے نفاذ کے لئے ایک پرتشدد پالیسی کا آغاز کیا اور وہ تمام قبائلی رسومات جو ان کے نزدیک غیر شرعی تھیں ان کے خاتمے کا اعلان کیا۔  مقامی آبادی کی شروع میں حمایت مزاحمت اور مخالفت میں بدل گئی، جس کے نتیجہ میں1831میں بالا  کوٹ کے مقام پر سکھوں کے ہاتھ شہادت پر خلافت کا خاتمہ ہو گیا- موجودہ دور میں خلافت قائم کرنے والوں کے لیئےاس موومنٹ کی ناکامی کی وجوہات کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے:
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سید احمد شہید بریلوی نفاذ شریعت ایک عاجلانہ قدم تھا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایک طویل مدت تک اہل سرحد کی دینی اور اخلاقی تربیت کی جاتی اور خود ان کے علما کو اصلاح معاشرہ کے لیے تیار کیا جاتا۔ سکھوں سے محاذ آرائی کے پیش نظر بھی اس معاملے میں محتاط روش درکار تھی۔ لیکن سید صاحب کے مزاج میں جو عجلت تھی، اس نے ان کو زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیا اوران سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’سید صاحب اور شاہ اسماعیل شہید نے جس علاقہ میں جاکر جہاد کیا اورجہاں اسلامی حکومت قائم کی، اس علاقہ کو اس انقلاب کے لیے پہلے اچھی طرح تیار نہیں کیا تھا۔ ان کا لشکر تو یقیناًبہترین اخلاقی و روحانی تربیت پائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا۔ مگر یہ لوگ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے جمع ہوئے تھے اور شمالی مغربی ہندوستان میں ان کی حیثیت مہاجرین کی سی تھی۔ اس علاقہ میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود اس علاقہ ہی کی آبادی میں پہلے اخلاقی و ذہنی انقلاب برپا کردیا جاتا تاکہ مقامی لوگ اسلامی نظام حکومت کو سمجھنے اور اس کے انصار بننے کے قابل ہوجاتے۔ دونوں لیڈر غالباً اس غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ سرحد کے لوگ چونکہ مسلمان ہیں اور غیر مسلم اقتدار کے ستائے ہوئے بھی ہیں، اس لیے وہ اسلامی حکومت کا خیر مقدم کریں گے۔ اسی وجہ سے انھوں نے جاتے ہی وہاں جہاد شروع کردیا اور جتنا ملک قابو میں آیا اس پر اسلامی خلافت قائم کردی۔ لیکن بالآخر تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ نام کے مسلمانوں کو اصلی مسلمان سمجھنا اور ان سے وہ توقعات رکھنا جو اصلی مسلمانوں ہی سے پوری ہوسکتی ہیں، محض ایک دھوکا تھا۔ وہ لوگ خلافت کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب ان پر یہ بوجھ رکھا گیا تو خود بھی گرے اور اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے۔‘‘
یہ تبصرہ بالکل صحیح اور حقائق پر مبنی ہے۔ تحریک جہاد اور خلافت کی ناکامی میں جو داخلی اسباب موثر ثابت ہوئے ان میں اتحاد فکر و عمل کا فقدان، عجلت وبے صبری، شخصیت پرستی اور توکل کا غیر قرآنی تصور جیسے عوامل زیادہ اہم ہیں-
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک محض مذہبی جوش کے سہارے شروع ہوئی تھی اور اسے مفروضوں پر تشکیل دیا گیا تھا جو حقیقتیں تھیں انہیں نظر انداز کردیا گیا تھا ۔تحریکیں محض جوش اور تشدد اور تعصب و سختی  سے کامیاب  نہیں ہوتی ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی قوت و توانائی ضائع ہوتی ہے۔
اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد علماء نے جہاد کی بجائے تبلیغی مشن شروع کئے اور اپنے اثر و رسوخ  کے  لئے  مدرسے اور درس گاہیں قائم کیں اس تحریک نےہندوستان کے علماء کے طبقے میں بھی گہرے اختلافات  پیدا کیے اور یہ اختلافات مناظروں اور وعظوں کی صورت میں اور زیادہ شدید ہوتے چلے گئے۔ اس لئے علماء اور ان کے پیرو کاروں کی جماعتوں نے اس تحریک سے قطعی  لاتعلقی  کا  اظہا رکیا اور یہاں تک ہوا کہ ان کی  شکست پر خوشیاں منائی گئیں اور اس تحریک کا انجام بھی وہی ہواجو اکثر احیاء کی تحریکوں کا ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی بجائے ان میں تفرقہ ڈال کر خود کو ایک نئے فرقے کی حیثیت سے تشکیل دے دیتی ہیں۔ چنا نچہ  ان مذہبی تنازعوں اور اختلافات کی چھاپ اب تک مذہبی جماعتوں اور گروہوں میں موجود ہے-
خلافت یا شرعی نظام کے نفاذ سے پہلے عوام کی تربیت اور تیاری بہت ضروری ہے:
کوئی نظام عوام کی حمایت اور قبولیت کے بغیر زبردستی تھوڑے عرصہ ہے چل سکتا ہے- مکمل تیاری کے بغیر صرف جوش سے کام نہیں چل سکتا- بد قسمتی سے عوام میں شعور اور بیداری پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کا فقدان ہے-
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی 13سال کی جدوجہد ک بعد مدنیہ میں ریاست قائم کی، عوام کی تربیت کی اور شرعی نظام کو بتدریج نافذ کیا-
ایران میں انقلاب کے بعد جمہوری ملایت قائم ہے جس کے خلاف رد عمل ہے- ابھی ایک ماڈریٹ صدر منتخب ہوا ہے مگر 12 رکنی "ولایت فقه" کا مکمل کنٹرول ہے- پاکستان میں ملایت کی کوئی گنجائش نہیں-
خلافت کے حامی افراد اور تنظیموں کو اپنے آپ کو معاشرہ میں قابل قبول acceptable بنانا ہے تاکہ عوام اور سول سوسائٹی، intelectuals کو ان پر کانفیڈنس ہو کہ وہ ملک چلانے کی اہلیت،  ٹھوس پروگرام اور ٹیم رکھتے ہیں- صرف خلافت اور شریعت کے نفاذ کے نعرے لگانے سے پاکستان کی باگ ڈور ان کے حوالے کوئی نہیں کرے گا- اگر کوئی بیمار ہو اور سپیشلسٹ ڈاکٹر کو دکھانا ہو تو پہلے ڈاکٹر کی قابلیت ، شہرت معلوم کی جاتی ہے، اپنی زندگی کو کوئی داؤ پر نہیں لگاتا، یھاں بیس کروڑ عوام کا معاملہ ہے- ویسے بھی خلافت کے بہت دعوے دارہیں، انتخاب تو عوام نے ہے کرنا ہے- زبردستی اوربزور طاقت حکومت پر قبضہ کا دور ختم ہو چکا- جنرل ضیاء الحق نے اسلام اور شریعت کے نفاذ کا سیاسی ڈرامہ کیا جو ناکام رہا-

فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج فتنہ و فساد جائز نہیں:
شدت پسند تحریکیں اور گروہ مسلمان حکمرانوں پرفسق و فجور، ظلم اور کفر، کرپٹ، طاغوت کے ایجنٹ اور اس طرح کے الزامات لگا کر ان کے خلاف بغاوت پر اکسا تے ہیں- بغیر ثبوت کے محض الزام کسی کو مجرم نہیں بنا سکتا- اگر واضح ثبوت مل جائیں تو ایسے ظالم حکمرانوں کے خلاف' پر امن خروج 'جائز ہے یعنی وہ خروج جو قلم یا زبان یا پرامن طریقے پر مبنی ہو۔
شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
''وأما ان کان الخروج بمجرد اظھار رأی مخالف والتعبیر عنہ باللسان أو القلم فھذا من المعارضة المشروعة ما دامت فی اطار المسلم ولا یجوز معارضة القلم أو اللسان بالسیف وانما تقابل الحجة بالحجة والفکرة بالفکرة.''
''اور اگر خروج کی صورت صرف یہ ہو کہ حکمرانوں کی رائے کے خلاف رائے کا اظہار زبان اور قلم کے ذریعے ہو تو حکمرانوں سے ایسا اختلاف کرنا مشروع ہے جب تک کہ مسلمانی کے دائرے میں ہو۔ قلم اور زبان کا مقابلہ تلوار سے جائز نہیں ہے۔ دلیل کا مقابلہ دلیل سے اور فکر کا فکر سے کیا جائے گا۔''
فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے۔
ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق کسی فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی-
فاسق و فاجرحکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کے دلائل درج ذیل ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
١) ''ألا من ولی علیہ وال فرآہ یأتی شیئاً من معصیة اللہ فلیکرہ ما یأتی من معصیة اللہ ولا ینزعن یدا من طاعة.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة و شرارھم)
''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔''
٢) ''من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر علیہ فنہ لیس من أحد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ لا مات میتة جاھلیة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' قول النبی سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
٣) '' ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاش عن مؤمنھا و لا یفی لذی عھد عھدہ فلیس منی ولست منہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''اور جو شخص بھی میری امت پر خروج کرے اور اس کے نیک و بدکار دونوں کو مارے اور امت کے مومن سے کو بھی اذیت دینے سے نہیں بچتا (جیسا کہ آج کل کے خود کش حملوں میں معصوم اور دیندار شہریوں کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے)۔ اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کا لحاظ کرتا ہے تو نہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ''
٤) ''مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا)
''جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
٥) ''سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ)
''کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔''
٦) '' اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب قولہ تعالی وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا)
''جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواروں(یعنی ہتھیاروں) سے آمنے سامنے ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔''
٧) ''لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ لا ترجعوا بعدی کفارا)
تم میرے بعد کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جانا۔
٨) عن عدیسة بنت ھبان بن صیفی الغفاری قالت: جاء علی بن أبی طالب لی أبی فدعاہ للخروج معہ' فقال لہ أبی: ان خلیلی و ابن عمک عھد لی اذا اختلف الناس أن اتخذ سیفا من خشب فقد اتخذتہ فن شئت خرجت بہ معک قالت: فترکہ.''(سنن الترمذی' کتاب الفتن عن رسول اللہ' باب جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنة)
'' عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں کہ حضرت علی میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں اپنے ساتھ (حضرت معاویہ کے خلاف جنگ میں) نکلنے کی دعوت دی۔ تو میرے والد نے حضرت علی سے کہا : بے شک میرے دوست اور آپ کے چچازاد(یعنی محمد ۖ) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو تم لکڑی کی ایک تلوار بنا لینا۔ پس میں نے لکڑی کی ایک تلوار بنا لی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس تلوار کے ساتھ آپ کے ساتھ جانے کو تیارہوں۔ عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں: اس بات پر حضرت علی نے میرے والد کو ان کی حالت پر چھوڑدیا۔''علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(صحیح ابن ماجة :٣٢١٤)
٩) کسروا فیھا قسیکم و قطعوا أو تارکم و اضربوا بسیوفکم الحجارة فان دخل علی أحدکم فلیکن کخیر ابنی آدم۔(سنن أبی داؤد' کتاب الفتن و الملاحم' باب فی النھی عن السعی فی الفتنة)
فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دو۔ اور ان کی تانت ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور اپنی تلواریں پتھروں پر دے مارو۔ پس اگر تم میں کسی ایک پر کوئی چڑھائی کرے تو وہ آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین کی مانند ہو جائے۔ علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'صحیح' کہا ہے۔ (صحیح ابن ماجة:٣٢١٥)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھائی کی مانند ہو جانا کہ جس نے قتل ہونا تو پسند کر لیا تھا لیکن اپنے بھائی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
'' البتہ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں تاکہ تجھے قتل کروں۔ بے شک میں تمام جہانوں کے رب سے ڈرنے والا ہوں۔ بے شک میں یہ چاہتا ہوں کہ تم (یعنی قاتل) میرے اور اپنے گناہوں کے ساتھ لوٹ جاؤ اور اس کے سبب سے جہنم والوں میں سے ہوجاؤ۔''
١٠) ''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.''(صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب ن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
''بے شک اللہ سبحانہ و تعالی اس دین اسلام کی تائیدو نصرت فاسق و فاجر آدمی کے ذریعے کرتا ہے۔'' مزید <<لنک >

جمہوریت اور شوری:
موجودہ دور میں جمہوریت عوام کے مشورہ سے حکمرانوں کے انتخاب کا ایک طریقہ کر ہے جس  نے نظریہ اور عمل دونوں میں کئی قسمیں اپنا لی ہیں- جمہوریت کی کچھ اقسام دوسروں کے مقابلے میں بہتر نمائندگی اور اپنے شہریوں کے لئے زیادہ آزادی فراہم کرتی ہیں- طویل تجربات کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج کے دور میں تمام ترانسانی خرابیوں کے باوجود  جمہوریت ایک بہترین نظام حکومت پیش کرتا ہے جس میں مختلف لوگوں کی رویات ، عقائد ، کلچر کے مطابق تبدیلی کی گنجائش موجود ہے- جو علماء جمہوریت کو شریعت اسلامی کے مطابق شوری سمجھتے ہیں ان کے ساتھ اتفاق کیا جا سکتا ہے- مگر سیکولر مغربی جمہوریہ سے نہیں جس میں اکثریت حرام (ہم جنس پرستی) کو قانون کے مطابق جایزقرار دے سکتی ہے- اسلامی جمہوریت میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی, انصاف اور مشاورت حکومت کی  بنیاد ہے- الله فرماتا ہے:
"بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں،"( قران 57:25)
"اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں"(قرآن ; 3:159)
اگر مسلمانوں کا حکمران فقط "خلیفه" کا لقب اختیار کر لے تو یہ خلافت نہیں- خلافت تو اسلام کے قرآن و سنت کی بنیاد پرشورائی، شرعی نظام اور عدل و انصاف پر اسلامی معاشرہ کی عملی صورت کا نام ہے-
جسٹس، رواداری، مساوات اور اعتدال پسندی اسلام کا طرہ امتیاز  ہے، جو انسانی زندگی کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے، چاہے مسلمان اور غیر مسلم- مسلم ممالک میں بدعنوانی اور ناکافی جمہوری حکومتوں کی وجہ سے جمہوریت پرلوگوں کے اعتماد کو ہلکا  کر دیا ہے. لہذاعوام اپنے مسائل کا حل فوجی حکومت (ڈکتٹرشپ ) میں تلاش کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسلامی خلافت کے نظام کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں- وہ عام لوگوں کی مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوے  جمہوریت کو غیر اسلامی یا حرام اور کفر کا نظام قرار دیتے ہیں-

خلافت کے حامیوں کا بظاہر ایک عالمی خلا فت کا قیام ہی ان کا حتمی مقصد ہے- یعنی انڈونیشیا سے مراکش تک،تمام اسلامی دنیا جسے امتِ مسلمہ کہا جاتا ہے،ایک اسلامی خلیفہ کی حکومت ہونی چاہیے- خلافت اور اسلامی جمہوریت کےحامی  علماء اور افراد قرآن و حدیث سے دلائل کی مدد سے اپنے پسندیدہ سیاسی نظام حکومت  کو سپورٹ کرتے ہیں- خلافت کے حامی قرآن سے ثبوت حاصل کرنے کی کوشش میں سوره نور کی آیات 55 کی تشریح کرتے ہوے تحریف قرآن سے بھی  گریز نہیں کرتے:
خلافت کی آیت (آیت استخلاف) اورتحریف قرآن :
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (24:55 سوره النور)
"اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُں لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بُنیادوں پر  قائم کر دے گا جسے اللہ تعالےٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے ، اور اُن کی (موجودہ )حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کُفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں" (24:55 سوره النور)
اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں  آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جوہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار ، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ای لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین ، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چو راہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں  بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟
اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود و صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ  زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ ہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم وے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنْکُمْ وَعَمِلُو االصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔(تفہیم القرآن، مزید تفصیل آخر میں اور لنک پر)

اسلامی دنیا اکیسویں صدی میں:
آج کے معروضی حقائق پرغورکریں تو پتا چلتا ہے کہ اس وقت اسلامی دنیا لبرل سوچ رکھنے والوں‘مذہبی  بنیاد پرستوں‘ اور اس طرح کی لاتعداد گروہ بندیوں میں منقسم ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہی ںملتی۔ان گروہوں کے باہمی اختلافات سطحی نوعیت کے نہیں بلکہ ہرگروہ کا ایک شدت پسند حصہ دوسروں کوعقائد کے حوالے سے کافرتک قراردیتا ہے- عربی مسلمان دنیا کے دوسرے خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کو نسلی اعتبار سے خود سے کم تر سمجھتے ہیں۔اختلافات اورنفاق کے اس لق ودق صحرا کواتفاق نامی شبنم کا ایک آدھ قطرہ کیونکرسیراب کر سکتا ہے؟ کیا بکھرے ہوئے سنگ ریزوں سے کوئی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔تو پھر مسلمانوں کے یہ تمام گروہ کس طرح ایک خلیفہ کوقبول کرلیں گے ؟اگر ہم ابھی تک عبادت کے کسی ایک متفقہ طریقے کواپنانے میں ناکام ہیں تو پھر ہم ایک خلیفہ کوکس طرح متفقہ طورپرچن سکتے ہیں؟
کچھ خلافت پسند اب اسلامی ممالک کی حکومتوں کا "یورپی یونین" کی شکل میں اتحاد قائم کرنے کی بات بھی کرتے ہیں-
جبکہ بہت سے معروف اسلامی علماء کے نظریہ کے مطابق شریعت کی حدود کے اندر جمہوریت مسلمانوں کے لئے ایک اچھے نظام کے طور پردرست نظام حکومت ہے- ان کی فکر کے مطابق ایک مخصوص مغرب جمہوری نظام کی  کاپی کرنے کے بجائے، ہر مسلم معاشرے کو اپنے لوگوں، عقائد، ثقافت اور ماحول کے لئے  ایک موزوں جمہوری نظام کو اپنایا جانا چاہئے، ان کی طرف سے بھی قرآن و حدیث سے دلائل موجود ہیں-
مسلمانوں کی سیاسی ترجیحات:
دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایک نئے "پیو ریسرچ سینٹر" کے سروے کے مطابق مجموعی طور پر پتہ چلتا ہے کہ مذہبی عقیدت اور جدید معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے درمیان زیادہ تر مسلمان کوئی متضاد تناؤ نہیں دیکھتے ہیں. نہ ہی وہ مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی تنازعہ دیکھتے ہیں. بہت سے لوگوں کو جمہوریت پسند حکمرانی سے زیادہ پسند ہے، یقین رکھتے ہیں کہ انسانوں اور دیگر زندہ چیزیں وقت کے ساتھ تیار ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر مغربی فلموں، موسیقی اور ٹیلی ویژن سے لطف اندوز کرتے ہیں - اگرچہ اکثر سوچتے ہیں کہ مغربی مقبول ثقافت عوامی اخلاقیات کو کمزور کرتا ہے-  پاکستان اور بہت مسلم اکثریت ممالک نائجیریا ، انڈونیشیا ، مصر، پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت اسلامی شرعی نظام کو پسند کرتی ہے-
پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کے زیر اہتمام ایک اور سروے کے مطابق جو اپریل 2013 میں شائع ہوا، نصف سے زائد نوجوانوں کو یقین ہے کہ جمہوریت ان کے ملک کے لئے بہتر نہیں ہے اور تقریبا 40 فیصد اسلامی شرعی حکومت کے حق میں ہیں- صرف 29 فیصد نے جمہوریہ پاکستان، آئینی آئینی اسلامی جمہوریہ کواور  38 فیصد نے اسلامی شرعی نظام کا انتخاب کیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق اسلامی شرعی نظام ان کے حقوق ، آزادی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیئےبہترین ہے- جب سب سے بہتر سیاسی نظام کا  پوچھا گیا  تو اکثریت اسلامی شرعی نظام اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کو جمہوریت پر ترجیح دیتی پائی گئی-  یہ واضح ہے کہ آج پاکستان کا سامنا سب سے بڑا مسئلہ سماجی اتفاق رائے کی کمی ہے کہ ملک کو کس سمت میں جانا ہے؟
کیا پاکستان، ایک معاشرے اور ریاست کے طور پر، ایک "فوجی آمریت" کے طور پر منظم کیا جانا چاہئے،یا "مذہبی ملایت"  یا ایک "مضبوط جمہوری ثقافت" کی بنیاد پر جو ہر طرح سے معاشرے میں اسلام کی اہمیت اور مقام کا احترام کرتی ہو؟ اس اتفاق رائے کی غیر موجودگی معاشرے کوتقسیم کر رہی ہے. لہذا "نقلی ، بے مقصد  ڈیموکریسی" ، "مغربی جمہوریت" اور حقیقی "اسلامی جمہوریت"' کے درمیان فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے- یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلامی شرعی نظام ہی خلافت کی بنیاد ہے- اگر یہ مقصد حقیقی "اسلامی جمہوریت"' کے زریعہ حاصل ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں-

اسلام کا نظام خلافت اور خلافت کے بنیادی اصول:
چار بنیادی اصول زاہد الراشدی صاحب نے پیش کیئے ہیں:
1.خلیفہ عوام کی صوابدید پر منتخب ہوگا، البتہ اس کے دو پہلو قابل توجہ ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی رائے میں اہل حل و عقد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کریں اور ابن تیمیہؒ اسے عامۃ المسلمین کا حق قرار دیتے ہیں۔
2.خلیفہ خاندانی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ خاندان کی قید کے بغیر کسی بھی مستحق شخص کو خلیفہ منتخب کیا جا سکے گا۔
3.خلیفہ عوام کے سامنے جواب دہ ہے جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبۂ خلافت میں واضح کر دیا تھا کہ اگر میں صحیح راستے پر چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر قرآن و سنت سے ہٹ کر چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہاں سیدھا کر دینے کے لفظ میں بھی ایک بلیغ اشارہ ہے کہ عوام کو صرف خلیفہ کی غلطی کی نشاندہی کر دینے کا حق نہیں دیا جا رہا بلکہ "فقومونی" کہہ کر سیدھا کر دینے کا حق انہیں دیا جا رہا ہے جسے میں اپنی طالب علمانہ رائے میں ’’حق احتساب‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں اور اس کی عملی صورتیں زمانے کے حالات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔
4.خلیفہ خود مختار نہیں بلکہ قرآن و سنت کے احکام اور امت کے اہل حل و عقد کے ساتھ مشاورت کا پابند ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور بہت سے دوسرے فقہاء کرامؒ کا کہنا یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کا براہ راست حق ہے کیونکہ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت و بیعت میں سب لوگ بلا امتیاز شریک تھے۔ میرا طالب علمانہ رجحان بھی اسی طرف ہے لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ انتخاب براہ راست ہو یا بالواسطہ دونوں صورتوں میں خلافت کے قیام اور خلیفہ کے انتخاب کے لیے امت کی اجتماعی صوابدید ہی بنیاد ہے اور اس اجتماعی صوابدید کے اظہار کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس اصولی بحث کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے انتخاب کے لیے فقہاء کرامؒ نے جو عملی صورتیں بیان فرمائی ہیں ان کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ فقہاء کرام نے خلافت کے انعقاد کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں:
1.امت کے عوام یا اہل حل و عقد خلیفہ کا انتخاب کریں جیسا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
2.خلیفۂ وقت کسی کو اپنا جانشین نامزد کر دے جیسا کہ حضرت عمرؓ کو خلیفہ اول نے نامزد کیا تھا۔
3.خلیفۂ وقت کچھ لوگوں کو خلیفہ کے تقرر کا اختیار دے دے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے چھ ممتاز افراد پر کمیٹی قائم کر دی تھی اور انہوں نے عوام سے اجتماعی مشاورت کے بعد حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کر لیا تھا۔
4.خلافت کی مجلس شوریٰ کے ارکان کسی کو خلیفہ بنا لیں جیساکہ حضرت علیؓ کا انتخاب ہوا تھا۔ 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب علی بن ابی طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی-
5.کوئی اہل شخص اقتدار پر قبضہ کرلے اور امت اسے قبول کر لے جیسا کہ حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد امت مسلمہ نے حضرت امیر معاویہؓ کو متفقہ امیر المومنین کے طور پر قبول کر لیا تھا۔
ان پانچ صورتوں میں سے آج کے دور میں صرف پہلی (انتخاب) اور آخری دو صورتیں (مجلس شوریٰ) اور ( اقتدار پر، پرامن قبضہ جو صرف فوج کر سکتی ہے کوئی اور کوشش کرے گا تو خانہ جنگی ہو گی جس کو فوج کچل دے گی) قابل عمل ہیں، درمیان کی تینوں صورتیں عملاً ممکن نہیں ہیں، اس لیے کہ ان تینوں صورتوں کا مدار خلافت اور خلیفہ کی موجودگی پر ہے اور چونکہ اس وقت خلافت اور خلیفہ شرعی طور پر موجود نہیں ہیں اس لیے درمیان کی تینوں صورتیں خارج از بحث ہو جاتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق خلیفہ کے پر امن چناوکے لیے مناسب جمہوری طریقه  اختیار کیاجا سکتا ہے- آیین پاکستان جس کا ابتدایۂ قرارداد مقاصد ہے ، الله کی حکمرانی منتخب نمائندوں کے زریعہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہے- آیین پاکستان کے اسلامی ہونے پرمذہبی سیاسی جماعتوں کا اجماع ہے-

خلافت: مختصر تاریخ:
مسلمانوں کی تاریخ میں چار خلفاء راشدین کا دوراکثریت کی نظر میں مثالی تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا کسی بھی اسلامی نظام حکومت قایم کرنے کے لیے ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے-
آنحضرت کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیاگیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء ’’ حضرت ابوبکر رض ، حضرت عمر رض ، حضرت عثمان رض ، حضرت علی رض‘‘ کو عہد خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نائبین رسول نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقےسے کی۔اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ مورثی نہیں تھا بلکہ وصیت/اکابر اصحابہ رض کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔
مگر خلافت راشدہ کی مدت فقط ۳۰ سال رہی۔ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد شام کے حاکم حضرت امیر معاویہ رض خلیفہ بن گئے۔ اور اس طرح یہ خلافت ملوکیت کی طرف چلی گئی۔ اور خلیفہ نے ایک بادشاہ کی حیثیت اختیار کر لی۔ جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ خلیفہ کا چناؤ مورثی بنیادوں پر ہونے لگا۔ عالم اسلام پر تقربیا نوے سال تک بنو امیہ نے حکومت کی جن کا دارلخلافہ دمشق رہا۔۔ بنو امیہ کے دور میں عمر بن عبدالعزیز رح ایک ایسے خلیفہ تھے جنہوں نے خلافت راشدہ کے طرز پر حکومت کی اور پانچویں خلیفہ راشد کہلائے۔ اس کے بعد بنو عباس برسراقتدار آئے۔ ان کا دارالخلافہ بغداد تھا۔انھوں نے تقریبا ۵۰۰ سال تک حکومت کی۔ خاندان بنو عباس کی حکومت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔
عباسی دور حکومت کے آخری دنوں میں خلافت کی حیثیت برائے نام رہ گئی تھی۔ ہر جگہ خود مختار سلطانوں یا امیروں کی حکومت تھی۔ جو رسمی طور پر اپنے آپ کو عباسی خلافت کے تابع کہتے تھے۔ البتہ خطبہ خلیفہ ہی کے نام کا پڑھا جاتا تھا۔ مگر بغداد کی تباہی کے بعد یہ صورت بھی باقی نہ رہی۔ اس وقت مصر کے سلطان بیبرس نے ایک عباسی شہزادے کو جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا، المستنصر باللہ کے لقب سے قاہرہ میں خلیفہ بنا دیا۔ مگر مصر کا آخری خلیفہ سولہویں صدی عیسوی میں ترکی کے فرمانروا سلطان سلیم اول کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگیا۔
خلافت عثمانیہ ۱۵۱۷ء سے لے کر ۱۹۲۴ء تک رہنے والی سب سے زیادہ طاقتور مسلم سلطنت تھی۔ اس کے زمانے میں کسی بھی شخص نے خلافت کے دعویدار ہونے کا اعلان نہیں کیا (سوائے شریف مکہ حسین ابن علی کے، جو انگریزوں کا ایک بچھایا ہوا جال تھا) ۔ خلافت عثمانیہ کو آخرکار کمال اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں ختم کر دیا۔ خلیفہ عبدالمجید کو برطرف کر دیا گیا اور خلافت کو ختم کرکے ترکی میں جمہوری حکومت قائم کر دی گئی۔(جو یورپی نظام سیاست سے متاثر ہوکر کیا جانے والے فیصلہ تھا جس کے بعد ترکی عالم اسلام سے کافی حد تک کٹ کر رہ گیا)
اسلامی تاریخ میں چند دیگر خلافتوں کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ ان میں اندلس کی خلافت امویہ، مصر کی خلافت فاطمیہ اور مراکش کی خلافت موحدین قابل ذکر ہیں۔ مگر یہ خلافتیں ایک مخصوص علاقے تک محدود رہیں ۔اندلس کی اموی خلافت عبدالرحمن اول نے 138ھ میں قائم کی تھی جو دراصل بادشاہت تھی۔ اس کا خاتمہ 1037ء میں المعتز باللہ کے عہد میں ہوا۔ فاطمی خلافت المہدی نے 377ھ میں قائم کی تھی۔ اس کا خاتمہ خلیفہ ابوالحمدعبداللہ کے عہد میں 656ھ میں ہوا۔ خلافت موحدین کے بانی دراصل معروف عالم دین ابن تومرت تھے تاہم اس کے پہلے حکمران عبدالمومن تھے جو 1145ء میں مسند اقتدار پر بیٹھے۔ اس خلافت کا خاتمہ 1269ء میں ادریس ثانی کے دور میں ہوا۔
آیین اسلامی جمہوریہ پاکستان
آیین پاکستان جس کا ابتدایۂ قرارداد مقاصد ہے ، الله کی حکمرانی منتخب نمائندوں کے زریعہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہے- آیین پاکستان کے اسلامی ہونے پرمذہبی سیاسی جماعتوں کا اجماع ہے اگرچہ عمل درآمد میں حکمرانوں کی طرف سے سستی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے عوام گڈ گورننس اور انصاف سے محروم ہیں- اس میں انتخابی عمل میں شفافیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے انتخاب درست نہیں ہو پاتے اورکرپٹ سویلین آمریت مسلط ہو جاتی ہے- اس  نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اچھے اور اہل افراد منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آ کر عوام کی صحیح خدمت کر سکیں نہ کہ کرپشن-
خلافت کے نام پر دہشت گردی:
عوام کی فرسٹیشن اور بددلی کا استحصال کرتے ہوئے کچھ غیرمقبول نا معلوم گروپ اور افراد  "اسلامی شرعی نظام خلافت" کا دلپزیر اور مقبول عام نعرہ بلند کرکہ عوام کی توجہ حاصل کرتے ہیں- سادہ اور مظلوم عوام اسلام سے محبت اور اپنے حالات کی تبدیلی کے لیئےتاریخی طور پر خلافت راشدہ کے اسلامی  عدل و انصاف کے نظام  کی خواہش میں ان دھوکہ بازوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں- نتیجہ ابو بکر بغداد ی، تحریک طالبان پاکستان ( حکیم اللہ محسود، ملا فضل اللہ) جیسے دشمن اسلام دہشت گرد مسلمانوں کا قتل عام خلافت کے نام پر کرتے ہیں-
اپنی خلافت کی دلیل کی لیے یہ سوره نور کی آیات55  کی تحریف کرتے ہیں- تحریف قرآن گناہ کبیرہ ہے- [اس پیج کے آخر میں ملاحظہ فرمایئں] (تفصیل لنک)
مسلمانوں کو ان دھوکہ بازوں سے ہوشیاررہنا چاہیے- یاد رکھیں کہ موجودہ نام نہاد جمہوریت میں عوام سول ڈکٹیٹرون کو نکال دیتے ہیں مگر اسلام کی آڑ میں دھوکہ باز مکا ر نقلی خلیفہ کو قتل و غارت کے بغیرنکلنا ممکن نہیں- لیبیا، عراق، شام اور اب افغانستان میں "داعیش"، نائجیریا میں "بوکو حرام" نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اسلام دشمن قوتوں کی بلا واسطہ مدد کی- مسلمان ممالک کا امن تباہ کر دیا، سامراجی مغربی طاقتوں، امریکہ اور ان کا پٹھو اسرائیل اب مشرق وسطیٰ کی اہم طاقت ہے جو فلسطنیوں پر ظلم جاری رکھے ہوے ہے- افغانستان، کشمیر، برما کے روھنگو مسلمان مظلوم ہیں-  کیا یہ اسلامی خلافت کے ثمرات ہیں؟
حزب التحریر:
حزب التحریر بھی اس یطرح  خلافت کے نعرہ پر کام کر رہی ہے، اس پر پاکستان اور کئی اسلامی ممالک میں پابندی عاید ہے مگر برطانیہ میں آزادی ہے ، کیوں؟
حزب التحریر لبنان سے شروع ہونے والی ایک اسلامی جماعت جو پاکستان میں 1999ء سے متحرک ہوئی۔ حزب التحریر کو 1953ء میں بیت المقدس میں جامعہ الازہر کے تعلیم یافتہ تقی الدین نبہانی نے قائم کیا جو اس کے نظریہ ساز بھی تھے۔ حزب التحریر جب پاکستان میں سرگرم ہوئی تو اس وقت بھی یہ تمام عرب ملکوں میں اور وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں میں ممنوعہ تنظیم تھی۔ حزب التحریر پاکستان میں 2000ء میں مکمل طور پر نمودار ہوئی جب لاہور شہر کے نمایاں مقامات پر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ دیکھے گۓ جن پر لکھا تھا خلافت وقت کا تقاضا ہے۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نوید بٹ اس کے ترجمان تھے اور اس کے دوسرے ارکان میں روانی سے انگریزی بولنے والے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے گریجویٹ اور بظاہر خوشحال نوجوان افراد شامل رہے۔ حزب التحریر پاکستان میں بظاہر کسی پُر تشدد سرگرمی میں ملوث نہیں- لیکن ان کے ان کے نظریات میں مسلمانوں کو ایک وحدت یعنی خلافت پر جمع کرنے کانعرہ موجود ہے۔ حزب التحریرپاکستان آرمی میں نفوز کرکہ بزور طاقت اپنا نظام خلافت قائم کرنا چاہتی ہے جو ایک غیر قانونی طریقه ہے- 2003 ء میں پاکستان میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی- پاکستان آرمی کی ایک عدالت نے ایک بریگیڈئیرعلی اور چار میجروں کوحزب التحریر( کالعدم تنظیم) سے تعلق اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزامات میں قصور وار قرار دے کر قید کی سزائیں دیں۔  اگست 2007ء میں حزب التحریر نے انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی جس میں ساٹھ ہزار کے قریب مذہبی علماء اور کارکنوں نے شرکت کی۔ اکتوبر 2009ء میں بنگلہ دیش میں بھی اس جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی-
تنظیم اسلامی:
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنظیم اسلامی پرامن طریقه سے خلافت قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے- ان کی website سے ترجمہ درج ذیل ہے:
حزب التحریر اورتنظیم اسلامی  کے درمیان بنیادی اختلافات: (http://tanzeem.info/FAQs.aspx)
حزب التحریر اورتنظیم اسلامی کے پیچھے بنیادی خیال یہ ہے کہ اسلام صرف انفرادیت کا ایک نجی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیمات کو تمام شعبوں میں بھی لاگو کرنا ضروری ہے. دوسرے الفاظ میں، دونوں جماعتوں سے اتفاق ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکتا ہے اور خلافت کا نظام بحال کرنا چاہئے.
"ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک غیرمتشدد (پر امن) تحریک کے ذریعہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی ہے، جس کی بنیاد سورۃ توبہ کی آیت 112  "(" جو اللہ کی حدوں کی حفاظت کرتے ہیں ") اور حدیث جس کے مطابق، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ " اپنے ہاتھ سے برائی کو روکنا چاہئے"

"ہم یقین رکھتے ہیں کہ خلافت کو انتخابی سیاست میں حصہ لے کر قائم نہیں کیا جا سکتا؛ آج کی دنیا میں مسلح جدوجہد اب ممکن نہیں ہے اور انقلاب  (coup d'etat) ایک مستحکم اور مثبت تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ اسمیں  لوگوں کے عقائد اور خیالات میں تبدیلی نہیں شامل ہے-  اس کے بجائے، ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے، لہذا روحانی طور پر تبلیغ، حوصلہ افزائی، اور روح صاف کرنا خلافت کے قیام میں ابتدائی اقدامات کے طور پر  ضروری ہیں."
"ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایمان کی سطح اور گہرائی میں ایک سنگین کمی ہے اور مسلم معاشرے کے ایک اہم حصہ میں، ایک قابل اعتماد ذریعہ میں حقیقی ایمان کی بحالی کے بغیر اسلامی بحالی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا- اس کے حصول کے لئےقرآن مجید کی تعلیمات کی تبلیغ عوامی سطح کے ساتھ ساتھ بلند ترین دانشورانہ  سطح پرضروری ہے-" http://tanzeem.info/FAQs.aspx

یہ خلافت قائم کرنے کا ایک معتدل راستہ ہے اسی طرح حزب التحریر یا کوئی اور گروپ پر امن طریقه سے اپنے سیاسی ایجنڈا کو بڑھا سکتا ہے- مگر قانون کے دائرۂ کے اندر-
آپشنز
اس صورت حال میں عوام اور سیاسی لیڈرز کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

1.پولیٹیکل اور الیکشن ریفارمز:
ضرورت پاکستان میں موجودہ نظام کی بہتری اور عوام میں ووٹ کے تقدس کا شعور اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ اچھے ، نیک ، صادق و امین افراد کا انتخاب اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھ کر کریں نہ کہ پیسہ، برادری، لالچ کی بنیاد پر-

2.ووٹ کی شرعی حیثیت اور عوام کی ذمہ داری و تربیت :
ووٹ کی شرعی حیثیت پر مفتی محمد شفع کی بہت عمدہ تحریر ہے- آپ لکھتے ہیں کہ آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اورجماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈا گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کرکے یہ چند روزہ موہوم اعزازا حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہروقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملّت کے ہمدرد و سمجھ دار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں،لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندا سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں۔ لکھے پڑھے دین دار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے۔
انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔  آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لیے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مفید  نتائج برآمد ہوسکتے ہیں-
عوام کو اسلامی شرعی نظام کے لیے تیار کرنا ان کی دینی و اخلاقی تربیت کرکہ ایک اچھا اسلامی معاشرہ قائم کرنا ضروری ہے جہاں نفاذ شرعیت کوخوش دلی سے قبول کیا جا سکے- سید اجمد شید بریلوی کے تجربے سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے-

3.بزورطاقت اسلامی خلافت کا قیام:
یہ دراصل کوئی آپشن نہیں، کیونکہ یہ صرف دہشت گردی، جہالت، تباہی اور بربادی کا راستہ ہے جس کا خمیازہ امت مسلمہ پچھلے چالیس برس سے بھگت رہی ہے- کچھ گروہ  ابھی بھی سادہ لوح عوام کو خلافت کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں اس لیے اس کا تذکرہ ضروری ہے-
حرف آخر:
پاکستان اسلام کے نام پر بنا بیس کروڑ عوام پر مشتمل  ایک ایٹمی قوت والا واحد ملک ہے- یھاں امن و امان سے عملی طور پر نفاذ شریعت سے انصاف اور گڈگورننس سےمعاشی  ترقی ہو گی- ایک مضبوط پاکستان اسلامی امت کے لیے امید کی کرن اور ظلم کے خلاف مضبوط دیوار ہو گی جو اقوام متحدہ میں مستقل سیٹ اور ویٹو کا حق بھی محفوظ  رکھتا ہو-دشمن ہمیں امن سے ترقی نہیں کرنے دے گا اور داخلی کنفلکٹ میں الجھا کر مضروف اور کمزور کرنا چاہتا ہے-
خلافت کی آڑ میں دھشت گردوں کو آہنی آمریت قائم کرنےکی اجازت نہیں دی جا سکتی-اس طرح بہت سے خلافت کے دعوے دار پیدا ہو جائیں گے- پھر وہ عسکری تنظیمیں بنا کر دہشت گردی کی جنگ شروع کر دیں گے، خانہ جنگی اور انارکی پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش ہے-
رسول اللہ نے عہدہ کی طلب سے منع فرمایا ، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ جو شخص کسی عہدہ کا طالب ہو، اسے وہ عہدہ نہ دیا جائے ، خلفاء راشدین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی عہدہ طلب نہیں کیا ؛ بلکہ مسلمانوں نے ان کو اپنا سربراہ منتخب کیا ؛ اسی لئے اللہ کی نصرت ان کے ہم رکاب رہی ، بعد کو پوری اُمت میں فتنہ کا دور شروع ہوا ، خاندانی بادشاہتیں قائم ہوئیں ، لوگ عہدے طلب کرنے لگے ، یہاں تک کہ اس کے لئے قتل و قتال تک کی نوبت آنے لگی ، تو پھر مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد روٹھ گئی اور آہستہ آہستہ وہ عزت و سربلندی کی چوٹی سے ذلت و نکبت کی پستی میں جاگرے ۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ عہدہ و منصب اعزاز کی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ذمہ داری ہے ، آپ ا نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہے ، اور اپنی ذمہ داری میں آنے والے لوگوں کے بارے میں جواب دہ بھی ہے :  ’’ کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر : ۸۵۳)

یہ احساس ذمہ داری جتنا بڑھے گا ، عہدوں کی طلب کم ہوگی ، اور اگر اسے اعزاز سمجھا جائے گا تو عہدوں کی پیاس بڑھے گی اور چوںکہ عہدے محدود ہیں ؛ اس لئے ٹکڑاؤ پیدا ہوگا ، اور اگر نظر کام پر رہے گی تو چوںکہ کام کا میدان وسیع ہے ؛ اس لئے اس میں شامل ہونے والوں کی کثرت تقویت کا باعث ہوگی نہ کہ ٹکڑاؤ کا ۔
ابھی پاکستان آرمی نے دشت گردوں کی کمر توڑی ہے، 70,000 سے زیادہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے- پاکستان کو امن چاہیے تاکہ وہ امت مسلمہ کی طاقت بنے جومغربی سامراج نہیں چاہتا-

پاکستان کے عوام کا چوائس ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟
1. پر امن جدوجہد سےپولیٹیکل اور الیکشن ریفارم تاکہ صادق و امین افراد منتخب ہو سکیں-
2.عوام کی اخلاقی تربیت اور ووٹ کے  شرعی استعمال سے  صادق و امین افراد کا انتخاب اور نفاذ شریعت-
3.خلافت کے حامی اپنی سیاسی تنظیم سازی کریں، عوام کو اپنا طریقه عمل واضح کریں- عوام کی اخلاقی، سیاسی اور دینی تربیت کا اہتمام کریں، انپی credentials اسٹبلش کریں اور پر امن جدوجہد سے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشس کریں-(ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی "تنظیم اسلامی" جو خلافت قائم کرنے کا مشن رکھتی ہے ، پر امن جدوجہد کا ماڈل اوپر بیان کیا گیا <<تفصیل لنک >>) طاقت کے حصول اور حکمرانی کے لیئےجدوجہد کرنا رسول اللہ کے فرمان کے برخلاف ہے-
یا
4. خلافت کے نام پر خانہ جنگی ، انارکی اور دہشت گردی،عوام کا قتل عام، ملک کی تباہی (لیبیا ، عراق، شام ، افغانستان) اوراسلام دشمن طاقتوں کی مدد-

یقینا عقل کا تقاضا ہے کہ پہلے تین مجوزہ اقدامات سے قیام  پاکستان کے حقیقی مقاصد حاصل کیئے جا سکتے ہیں-
اگر اب بھی کوئی شخص یا گروہ یہ دعوی کرے کہ: "حکومت ان کے حوالہ کر دی جائیےکیونکہ صرف وہ ہی خلافت اور شریعت نافذ کر سکتے ہیں"؛ ان کو کسی اچھے سائیکیٹرسٹ کو کنسلٹ کرنے کا مشورہ دینا چاہیئے۔

Shari'ah, Democracy, Khilafah - Conflict or Compatible ? >>>>

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
تحقیقی ریفرنس / لنکس



مزید پڑھیں:
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
Khilafat-The basic Differences between Hizb ut Tahrir and Tanzeem-e-Islmai:
The basic thought behind Hizb ut Tahrir and Tanzeem-e-Islmai is very nearly the same, namely that Islam is not just a private affair of the individual, but that its teachings must be implemented in all public spheres as well. In other words, both parties agree that Islamic State should be established and the System of Khilafah should be revived.

The disagreements concern the "methodology" and the "features of the future Islamic state." We believe that an Islamic State can be established in Pakistan by means of a popular non-violent movement, the basis of which is found in ayah no. 112 of Surah Taubah ("those who safeguard the limits of Allah") and hadith of Prophet Muhammad (saw) according to which one should stop evil with his hand (nahi anil munkar bil-yad).

We believe that Khilafah cannot be established by taking part in the electoral politics; armed struggle is no longer feasible in today's world and is out of the question; and a coup d'etat can never produce a stable and positive change as it does not involve changing the beliefs and thoughts of the people. Instead, we need to follow the example of the Prophet Muhammad (saw), and therefore preaching, exhortation, and purification of souls are essential initial steps in the establishment of Khilafah.
We also believe that there is a serious deficiency in the level and depth of Iman among the Muslims, and the dream of an Islamic revival cannot be realized without the revival of true Iman in a significant portion of the Muslim society, the only reliable means of which is the propagation of the Qur'anic teachings both at the popular level as well as the highest level of intellectual sophistication.
Concerning the future Islamic state, there can be many opinions about the details of its workings, especially because we do not have an Islamic state in real life and all we can do is theorize. Having said that, we believe that an ideal Islamic state of the future will not be a theocratic one; we also believe that we should take advantage of the new political institutions that have been developed by mankind during the social evolution of the last few hundred years. The Prophet (saw) said that wisdom is the lost treasure of the mo'min. The Qur'an and hadith do not give details of the workings of an Islamic state but only provide us with basic principles. We can apply these principles according to our age and conditions. The ideal model remains the Islamic state that was established by the Prophet Muhammad (saw) and maintained by the four rightly guided caliphs. The principles derived from this model must be incorporated into the modern political institutions (the executive, the parliament, and the judiciary) in order to establish a modern Islamic state that can deal with the challenges of the contemporary era and can become a model for the whole world. The sovereign in an Islamic state is Almighty Allah (swt) and all Muslims are His vicegerents (Khilafah is collective rather than individual). This provides the basis for democracy in the Islamic state, although it is not absolute because the ultimate authority rests with the Qur'an and Sunnah. The affairs of the state are to be decided and executed with the spirit of democracy and mutual consultation (the principle of Shura must be upheld); the legislature is bound by the injunctions of the Qur'an and Sunnah which it cannot transgress; the judiciary makes sure that no law is formulated, and no decision is taken, that is repugnant to the Islamic teachings; the Ulama are there to educate the masses and to guide the parliament and the courts, but they have no real authority. The provision of the basic necessities of life to all citizens (whether Muslim or non-Muslim) - including food, shelter, security, education, and health care - is among the foremost responsibilities of the state. [Source: http://tanzeem.info/FAQs.aspx ]
  • Shari'ah, Democracy, Khilafah - Conflict or Compatible ?
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

خلافت کی آیت (آیت استخلاف) اور خلافت پسندوں کی تحریف قرآن :

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (24:55 سوره النور)
"اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُں لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بُنیادوں پر  قائم کر دے گا جسے اللہ تعالےٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے ، اور اُن کی (موجودہ )حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کُفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں" (24:55 سوره النور)

اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا تباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابندگی و غلامی کی پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و نمکُّن کے معنی میں لے لیتے ہیں ، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح ، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔
یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔
خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تَمکُّن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں ، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت ، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے ، جیسے سود، زنا ، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے ، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟
اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟
اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً سفید اور ضروری ہیں ؟
اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نا رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان وہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟
مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ  ہدایت، اور اس کے  مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ، اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے ، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔
قرآن در اصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے :
اس کے ایک معنی ہیں ’’خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘ اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے۔
دوسرے معنی ہیں ’’خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی (نہ کہ محض امر تکوینی) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے ، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے ، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔
تیسرے معنی ہیں ’’ ایک دور کی غالب قوم کے  بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’’نیابت‘‘ سے ماخوذ ہیں ، اور یہ آخر یہ معنی خلافت بمعنی ’’جانشینی‘‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں۔
اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں  آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جوہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار ، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ای لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین ، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چو راہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں  بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،الانبیاء، حاشیہ 99)۔
اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود و صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ  زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ ہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم وے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنْکُمْ وَعَمِلُو االصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں ے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں ، تو اس کو جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ‘‘۔
دیکھنے والا خود ہی دیکھ  سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں-
(تفہیم القرآن)