Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

ایبٹ آباد میں ورود



5جولائی 1989ء کو مَیں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا۔صوبہ خیبرپختونخوا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہزارہ، اور ہزارہ کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک وادی، ایبٹ آباد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے براستہ ریحانہ (صدر ایوب خان کا آبائی گاؤں) 110 کلومیٹر، براستہ حسن ابدال 143 کلو میٹر، صوبائی دارالحکومت پشاور سے 155 کلومیٹر اور جی ٹی روڈ پر واقع حسن ابدال کیڈٹ کالج سے تقریباً 70کلومیٹر کے فاصلے پر شاہراہِ قراقرم(KKH) جسے شاہراہِ ریشم (Silk Route)بھی کہتے ہیں پر واقع ہے۔ شاہراہِ قراقرم اب چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا حصہ بن گئی ہے۔ یہی وہ شہر ہے، جہاں سے کچھ سال قبل اسامہ بن لادن پکڑا اور ماراگیا۔ پہلے صرف برصغیر پاک و ہند کے عوام اور سیر وسیاحت کے شوقین غیر ملکی باشندے ہی اس شہر کو اپنی خوبصورتی اور پُرفضا سیاحتی مقام ہونے کے ناطے سے جانتے تھے، لیکن اسامہ بن لادن والے واقعہ کے بعد تو اب ساری دنیا اس شہر کے نام اور محلِ وقوع سے واقف ہوگئی ہے۔ 

1849ء میں خطہ ہزارہ کے سکھوں کے قبضے سے نکل کر انگریزوں کے قبضے میں آنے کے بعد کیپٹن جیمز ایبٹ اس خطے کا پہلا نگرانِ اعلیٰ اور ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا۔ اُس وقت ہری پور اس خطے کا صدر مقام ہواکرتا تھا ۔ جیمز ایبٹ نے سب سے پہلے موجودہ ایبٹ آباد کے مقام پر ایک فوجی چھاؤنی بنائی اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ جیمز ایبٹ کے بعد آنے والے ڈپٹی کمشنر نے 1853ء میں اس نئے شہر کے خدوخال نکل آنے پر اسے (تب)میجر جیمز ایبٹ کے نام سے موسوم کرکے اِسے ضلع ہزارہ کا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ یہ شہر چارو ں طرف سے سربن اورشملہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان ایک پیالہ نما قطعہ زمین پرواقع ہے۔کہتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں یہ پیالہ ایک جھیل تھی جو رفتہ رفتہ خشک ہوکر ایک خوبصورت واد ی میں تبدیل ہوگئی۔ سواسوسال تک پورا خطہ ہزارہ ایک ضلع اور پشاور ڈویژن کا حصہ رہا۔

 1976ء میں ضلع ہزارہ کو ڈویژن کا درجہ دے کر اسے تین اضلاع ایبٹ آباد، مانسہرہ اور کوہستان میں تقسیم کردیاگیا۔ ایبٹ آباد کاشہر ہزارہ ڈویژن اور ضلع ایبٹ آباد دونوں کا ہیڈکوارٹرز قرار پایا۔1991ء میں ایبٹ آباد کی تحصیل ہری پور کو ضلع کا درجہ دے دیاگیا۔اسی طرح 1993ء میں تحصیل بٹگرام کو ضلع مانسہرہ سے الگ کرکے ضلع بنادیاگیا۔ 2012ء میں ضلع مانسہرہ ہی سے کالا ڈھاکہ اور اس کے گردونواح کے علاقے کو کاٹ کر طورغر کے نام سے ایک مزید ضلع بنادیاگیا۔ 2017ء میں ضلع کوہستان کو بھی لوئر کوہستان اور اَپر کوہستان کے نام سے دواضلاع میں تقسیم کردیاگیا۔ یوں یہ خطہ ہزارہ جو 1976ء تک ایک ضلع تھا ،آج سات اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہزارہ نا م کا کوئی ضلع اس ہزارہ ڈویژن میں وجود نہیں رکھتا۔ میرے وقت تک ہری پور ضلع ایبٹ آباد کا ہی حصہ تھا۔ میرے بعد یہ الگ ضلع بنا۔ یوں میں متحدہ ایبٹ آباد کا آخری ایس ایس پی تھا۔ ایبٹ آباد شہر کو گھوم پھر کر دیکھیں تو یہ فوجی اور تعلیمی اداروں کا ایک بہت بڑا کیمپس دکھائی دیتاہے۔

اس شہر کی آب وہوا اس قدر عمدہ ہے کہ انگریز کے وقت سے ہی اِسے رہائشی (boarding) تربیتی اور تعلیمی اداروں کے لئے موزوں ترین سمجھاجاتاہے۔ ایبٹ شہر میں واقع پاکستان ملٹری اکیڈمی،بلوچ رجمنٹ، فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور آرمی میڈیکل کور کی مرکزی تربیت گاہیں اورنتھیا گلی کے قریب کالا باغ کے مقام پر ائیر فورس کی تربیت گاہ میری تعیناتی سے بہت پہلے سے یہاں قائم تھیں۔ تعلیمی اداروں میں پاکستان بھرمیں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے ادارے آرمی برن ہال سکول اور ایبٹ آباد پبلک سکول بھی مجھ سے پہلے موجود تھے۔ ایوب میڈیکل کالج میرے سامنے تعمیر اور فعال ہوا، جبکہ فرنٹیئر میڈیکل کالج، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کامسٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج میرے بعد قائم ہوئے۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر سرکاری اوراعلیٰ معیارکی پرائیویٹ درسگاہیں ایبٹ آباد میں علم کی روشنی پھیلارہی ہیں۔ اِن تعلیمی اداروں کی بدولت ایبٹ آبادکی شرح خواندگی ملک بھر میں سب سے زیادہ (87فیصد)ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگا گلی، چھانگلہ گلی، خیرہ گلی،ایوبیہ، ٹھنڈیانی اور میراں جانی ضلع ایبٹ آباد کی خوبصورت پہاڑی چوٹیاں اور سیرگاہیں ہیں۔ خانپور ڈیم، تربیلا ڈیم اور حطار انڈسٹریل اسٹیٹ بھی میرے وقت تک ضلع ایبٹ آباد کا حصہ تھی۔

مجھ سے پہلے پولیس سروس آ ف پاکستان کے بڑے بڑے نامور سپوت ضلع ہزارہ یا ایبٹ آباد کے ایس ایس پی رہے۔ اِن میں سے بہت سے بعد ازاں کسی نہ کسی صوبے کے آئی جی تعینات ہوئے۔بعض دودواور تین تین صوبوں کے بھی آئی جی رہے۔ جب میں نے ضلع ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا اُس وقت جناب بریگیڈئیر (ر) امیر گلستان جنجوعہ صوبہ سرحد کے گورنر، جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ اس کے وزیر اعلیٰ، جناب عمر آفریدی اس کے چیف سیکرٹری اور جناب محمد عباس خان اس کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ جناب عبدالحمید خان ہزارہ ڈویژن کے کمشنر، جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم اس کے ڈی آئی جی (بعد میں آئی جی بلوچستان )اور جناب عطاء اللہ خان ضلع ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر (بعد میں وفاقی سیکرٹری)تھے۔ ایک رینکر افسر عبدالحمید خان ایبٹ آباد کے ایس پی ہیڈکوارٹرز اور موجودہ کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری لیاقت علی خان اے ایس پی سٹی ایبٹ آباد تھے جو چند ماہ بعدمیرے دور میں ہی ترقی یاب ہوکریہیں ایس پی ہیڈکوارٹرز تعینات ہوگئے۔ائیر مارشل اصغر خان، گوہرایوب خان(بعد میں سپیکر قومی اسمبلی اور وزیرِخارجہ) ،سردار مہتاب احمد خان عباسی(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد اور گورنر خیبرپختونخوا)، جاوید الرحمن عباسی (موجودہ ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے والد)،امان اللہ جدون، بابا حیدرزمان(تب چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل ایبٹ آباد)،راجہ سکندر زمان (بعد میں نگران وزیرِاعلیٰ)، یوسف ایوب (تب صوبائی وزیر)، پیر صابر شاہ(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد)،محمد ایوب تنولی(تب صوبائی وزیر)اور حبیب الرحمن تنولی وغیرہم اُن دنوں ضلع ایبٹ آباد کے سرکردہ سیاستدان تھے۔ ایبٹ آباد کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے نہایت توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری شروع کر دی، تاہم میرے دماغ میں ایک اُلجھن موجود تھی کہ میری طرف سے کسی توقع ، کوشش یاسفارش کے بغیر اور حکومت کی طرف سے کوئی اشارہ دیئے ، مشورہ کئے یا رضامندی جانے بغیر مجھ جیسے نووارداور اجنبی کی صوبے کی اس اہم پوسٹ پر تعیناتی کیسے اور کس بنیاد پر کی گئی ؟ تاہم کچھ دنوں بعد ایک باوثوق ذریعے سے ملنے والی معلومات سے یہ عُقدہ کسی حد تک حل ہوگیا۔ ہوا درحقیقت یوں تھاکہ جن دنوں میں نے صوبہ سرحد میں حاضری کررکھی تھی، لیکن ابھی میری کسی جگہ پوسٹنگ نہیں ہوئی تھی، ایبٹ آباد میں ایک بہت اہم واقعہ ہوگیا۔ ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی جناب مظہر شیرخان بہت یارباش قسم کے آدمی تھے۔ ہری پور کی ترین فیملی کے کچھ لوگوں سے ان کی دوستیاں تھیں ۔ یہ بے تکلف دوست تقریباً ہر روز شام کو ڈی آئی جی ہاؤس میں محفل جماتے ، تاش شطرنج کھیلتے، کھاتے پیتے اور خوش گپیاں کرتے۔

ایک دن نہ جانے کیاہوا کہ ڈی آئی جی مظہر شیر خان او ر اشر ف ترین اور امان اللہ ترین (تب سپیکر سرحد اسمبلی) کے درمیان کسی بات پر تلخی ہوگئی۔ اشرف ترین نے غصے میں ریوالور نکالا اور ڈی آئی جی صاحب کو وہیں اُن کے اپنے گھر میں قتل کردیا اور بھاگ نکلا۔ اس اندوہناک واقعہ پر صوبے بھر میں ایک کہرام مچ گیا، لیکن اس سے زیادہ بُرا یہ ہوا کہ یہ قتل ایبٹ آباد میں پختون بمقابلہ ہزارہ وال مخاصمت کا رنگ اختیار کرگیا ۔لسانی اور علاقائی عصبیتیں جاگ اُٹھیں۔ دونوں اقوام خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل آکھڑی ہوئیں۔ یہاں تک کہ (جیساکہ مجھے بتایاگیا) ہزارہ سے تعلق رکھنے والے عوام وخواص پرکیا موقوف ، پولیس کے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی اکثر یت نے مقتول ڈی آئی جی کاجنازہ نہ پڑھا۔ قتل کے اس افسوس ناک واقعہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے لسانی اور علاقائی تعصب ،اوراس کے عملی مظاہرے نے صوبائی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا۔ صوبائی حکومت ایبٹ آباد کی انتظامیہ سے سخت نالاں ہوئی ۔ اندریں حالات فیصلہ کیا گیا کہ ایبٹ آباد کی پوری انتظامیہ کو تبدیل کردیاجائے۔ مقتول ڈی آئی جی کی جگہ فوری طور پر جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم کو نیا ڈی آئی جی، جبکہ جناب عبدالحمید خان اور جناب عطاء اللہ خان طورو کو بالترتیب نیا کمشنر ہزارہ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد تعینات کردیاگیا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور سب ڈویژنل پولیس افسرایبٹ آباد بھی تبدیل کردیئے گئے۔ ایس ایس پی کو بھی بدلنے کا فیصلہ ہوچکاتھا ،لیکن چونکہ امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا تھا، خصوصاً اِس قتل کیس کی تفتیش ،ملزمان کی گرفتاری اور مقدمے کو چالان عدالت کرنے جیسے بہت سے اہم مراحل ابھی طے ہوناباقی تھے ،نیز کچھ دنوں کے بعد پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن کوپہلی بارایبٹ آباد میں منعقد ہونا تھااورصوبائی حکومت اِسے منسوخ کرکے کسی قسم کی کمزوری کا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی تھی، چنانچہ ایک تجربہ کار ،تمام حالات وواقعات اور لوگوں سے بخوبی واقف اوراعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ایس ایس پی جناب فیاض طورو کو ان امور کی تکمیل تک روک لیا گیا۔ اس دوران نئے ایس ایس پی کا تقرر زیرِ غور رہا۔ صوبے کے بڑوں نے دیگر ناموں کے ساتھ ساتھ میرے نام پر بھی غور کیا۔ اُن معروضی حالات میں انہیں کو ئی غیر متنازعہ ،غیر جانبدار، ترجیحاً صوبہ غیر کا اور مناسب سینیارٹی کا کوئی افسر درکارتھا۔ میں نہ پختون تھا ،نہ ہزارہ وال۔ میں نے صوبہ سرحد میں اس سے پہلے کہیں کام نہیں کیا تھا۔ میرا صوبے کی کسی علاقائی، لسانی، مذہبی یاسیاسی شخصیت، گروہ، گروپ یا پارٹی سے کوئی تعلق یا تعارف نہیں تھا۔ میری سنیارٹی بھی مطلوبہ معیار کے مطابق تھی اور میری آخری پوسٹنگ بھی ایبٹ آباد سے ہر اعتبار سے کہیں زیادہ مشکل ضلع گوجرانوالہ کے ایس ایس پی کی تھی، لہٰذا بڑوں نے اس موقع پر مجھے ا س پوسٹ کے لئے موزوں سمجھا اور فیصلہ ہوا کہ متذکرہ بالا ضروری امور کی تکمیل کے بعد مجھے ایس ایس پی ایبٹ آباد لگادیاجائے، لیکن میں ان تمام حالات اورسوچ سے بے خبر اپنی پوسٹنگ کے لئے یاددہانی اور درخواست کرنے کی غرض سے وقت سے ذرا پہلے ہی آئی جی صاحب کے سامنے جاپیش ہوا ۔ انہوں نے مجھے ٹالنے یا مزید انتظار کرنے کا کہنے کی بجائے کمال مہربانی کرتے ہوئے اسی دن میری ایبٹ آباد تقرری کا پروانہ جاری کروا دیا، تاہم پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چارج بیس روز بعد بجٹ سیشن کے اختتام پر میرے حوالے کیا گیا۔ یہ سب ایک اندرونی انتظامی حکمت عملی تھی جس کا وزیراعلیٰ ،آئی جی اور چیف سیکرٹری کے سوا شاید کسی اور کو علم نہ تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا اور جس طرح بھی ہوا،اب مجھے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرناتھا۔


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

صوبہ سرحد (خیبر پختوں خواہ ) میں آمد


گوجرانوالہ سے حالات کے جبر کا شکار ہو کر نکلے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور ایک’’ مجرم ‘‘رپورٹ کیے تقریباً تین ہفتے ہو چلے تھے۔ میں یہ تمام عرصہ لاہور میں اپنے گھر گوشہ نشین رہا اور مسلسل سوچتا رہا کہ وفاقی حکومت میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔جواب ملتا کہ اگر معاملات دفتر کے لگے بندھے معمول کے مطابق چلے (جس کا امکان بہت کم تھا)تو حکومت مجھے صوبہ سندھ، بلوچستان یا سرحد میں سے کسی ایک میں بھیج دے گی۔ نامہرباں ہوئی تو ایف آئی اے، اِنٹیلجنس بیورو یا پولیس اکیڈمی بھیج دے گی۔ زیادہ نامہربان ہوئی تو مجھے کسی وفاقی دفتر میں سیکشن افسر لگادے گی۔ اگر غصے میں ہوئی تو اوایس ڈی بناکر بٹھا چھوڑے گی۔ اگرزیادہ غصے میں ہوئی تو غیر معینہ مدت کے لئے بغیر کسی پوسٹنگ کے یونہی معلق رکھے گی(جیسا کہ میں اُس وقت تھا) اور پھر بھول جائیگی، اور اس دوران میں تنخواہ سے بھی محروم رہوں گاکیونکہ اس کے لئے کسی نہ کسی پوسٹ پر تعینات ہونا ضروری ہوتا ہے، خواہ وہ اوایس ڈی کی ہی ہو۔اور اگر بہت ہی زیادہ غصے میں ہوئی تو انضباطی کارروائی کا آغاز بھی کرسکتی ہے۔ میں اس موضوع پر جتنا سوچتا اُتنا ہی اُلجھتا چلاجاتا۔ اور پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ گھر بیٹھے رہنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا ۔مجھے باہر نکلنااور اپنا راستہ بناناہوگا۔ 

مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوچکاتھا کہ ہمارے سارے ملازمتی معاملات وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ راؤ عبدالرشید خاں کے ہاتھ میں ہیں اور ان تک پہنچے بغیر بات نہیں بنے گی۔ میں نے اُن سے براہ راست ملنے کا فیصلہ کرلیا ۔میرے یہ فیصلہ کرنے میں ہمارے ایک سینئر پولیس افسر جناب خالد لطیف کی ایک موقع پر ہم جونیئر افسران کو کی گئی ایک نصیحت کو بہت دخل تھا ۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’یادرکھیں ! افسر اپنی سفارش خود ہوتاہے۔ جب کبھی کوئی ایساموقع پیش آئے ، متعلقہ بندے سے خود بات کریں۔ ادھر اُدھر سے مت کہلوائیں۔‘‘ راؤ عبدالرشید خاں صاحب سے میرا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعارف نہ تھا ۔ میں نے کبھی اُن کو دیکھا تک نہ تھا۔ 1978میں جب ہم پولیس کالج سہالہ میں پولیس کی ابتدائی تربیت حاصل کررہے تھے وہ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکے خصوصی ساتھی اور معاون ہونے کے’’ الزام‘‘ میں جبری ریٹائرکئے جاچکے تھے۔ میرا ان سے کُل تعارف مشہور صحافی منیر احمد منیر کو دیئے گئے ان کے ایک طویل انٹرویو پر مبنی کتاب ’’جومیں نے دیکھا‘‘ کے توسط سے تھا ۔ میں نے پیپلز پارٹی کے ایک پرانے رہنماکے ذریعے راؤ صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور وقت مقررہ پر اسلام آباد اُن کے دفتر جاپہنچا ۔

راؤ عبدالرشید خاں صاحب بہت دبنگ، اکھڑ ، سخت گیر اور بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانے کی شہرت رکھتے تھے ۔ جس کی چند جھلکیاں میں گوجرانوالہ میں دیکھ چکا تھا۔ خلاف توقع بڑی شفقت اور ملائمت سے ملے ۔میں نے حوصلہ پاکر انہیں گوجرانوالہ کی ساری صورتحال تفصیل سے بتائی اور کہا کہ آپ لوگوں کو یہاں مرکز میں صورت حال کی بہت غلط رپورٹنگ ہوتی رہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ضمنی انتخابات کے دوران اول تو کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی ہی نہیں ، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہوئی تھی تو بتائیں کیا اس میں کسی بھی اعتبار سے پولیس ملوث تھی؟ کیا الیکشن والے دن دھاندلی کی کوئی ایک بھی شکایت کسی بھی فریق کی طرف سے کی گئی؟ کوئی ایک بھی جعلی ووٹر یا ووٹ پکڑ ا گیا؟پوری انتخابی مہم کے دوران کسی بھی جگہ پولیس نے پیپلز پارٹی کے خلاف یا مسلم لیگ کے حق میں کوئی کام کیا؟ میں نے شناختی کارڈ والے واقعہ کی بھی تفصیل اور اس ضمن میں پولیس کی مثبت کارروائی کاذکرکیا ۔ میں نہ جانے کیاکچھ بولتاچلاگیا اور وہ سنتے چلے گئی۔ آخر میں میں نے بالکل کھلے الفاظ میں شکایتاً یہ بھی کہہ دیا کہ وفاقی حکومت نے ہم دونوں (مجھے اور میرے ڈی آئی جی ) کو انتہائی نیک نیتی اور غیرجانبداری سے کام کرنے کے باوجود جانبداری کا الزام لگاکر بطور ملزم واپس بلاکر ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ راؤ صاحب خاموشی اور انہماک کے ساتھ سب کچھ سنتے اور اگلی نسل کے ایک نوجوان پی ایس پی افسر کو اپنے بے کراں تجربہ کی روشنی میں کھنگالتے، ٹٹولتے اور تولتے رہے ۔اور پھرشاید اُنہیں اگلی نسل کے اس جونیئر افسر کی صاف گوئی ، سچائی اور بے باکی بھاگئی۔ جب میں چُپ ہوا تو قدرے مسکرا کر نہایت متانت اور نرمی سے بولے ’’تو پھر اب کیاہوسکتاہے؟میں آپ کو اب پنجاب تو واپس نہیں بھیج سکتا۔‘‘ میں نے کہا ’’سر!میں بھی سمجھتاہو ں کہ اب یہ ممکن نہیں۔ اگر آپ بھیج بھی دیں تو اب پنجاب والے ہمیں قبول نہیں کریں گے۔ میری اب آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ میں چونکہ لاہور کا رہنے والا ہوں ، مجھے کہیں دُور دراز بھیجنے کی بجائے کہیں قریب ہی تعینات کر دیں ۔ اس لحاظ سے صوبہ سرحدہی قریب ترین ہے۔ 
‘‘ انہوں نے اثبات میں سرہلادیا اور میں سلام اور شکریہ اداکرکے باہر نکل آیا۔ اُسی روز میری خدمات حکومتِ سرحد کے سپرد کردی گئیں۔ میں نے صوبہ سرحد میں کبھی نوکری نہیں کی تھی اور نہ وہاں کسی کو جانتاتھا۔ مجھے صرف یہ علم تھا کہ وہاں کے آئی جی محمد عباس خان ہیں(جو بعد میں آئی جی پنجاب بھی رہے۔ پولیس سروس آ ف پاکستان کا ایک بہت بڑا نام۔) اوراُن کی شہرت بہت اچھی ہے، اور بس۔ میرا اُن سے کوئی تعارف یا ملاقات نہیں تھی ۔ خود اُنہوں نے تو شاید کبھی میرا نام بھی نہ سُنا ہوگا ۔نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ایک دوروز بعد میں ایک شام پشاور پہنچا ۔ فرنٹیئ کانسٹیبلری کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا ۔ اگلی صبح لوگوں سے پوچھتا پوچھاتا چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچا ۔ چیف سیکرٹری جناب عمر آفریدی دفتر میں موجود نہ تھے ۔ میں نے ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس اپنی حاضر ی کی رپورٹ کی ، اپنا لاہور کا ایڈریس اور رابطہ نمبر دیا اور درخواست کی کہ پوسٹنگ کی کوئی تجویز بنے یا پوسٹنگ آرڈر نکلے تو براہ کرم اطلاع کردیں ۔ وہاں سے آئی جی آفس آیا ۔ آئی جی صاحب موجود تھے۔ سرسری سی ملاقات ہوئی۔ میں نے اُنہیں مختصراًبتایاکہ میں پنجاب سے ٹرانسفر ہوکر آیاہوں۔چیف سیکرٹری آفس میں حاضری کردی ہے ۔ کسی مناسب جگہ پر تعیناتی کرادیجئے۔ آئی جی صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے وہیں سے گاڑی کا رُخ موڑا اور رات تک لاہور لوٹ آیا۔ پشاور رپورٹ کئے جب ایک ماہ گذر گیا اور وہاں سے کوئی خیر خبر نہ آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک بار پھر پشاور جاناچاہیے اور آئی جی صاحب سے دوبارہ درخواست کرنی چاہیے کہ وہ مجھے کسی مناسب جگہ تعینات کردیں۔ چنانچہ یونیورسٹی ٹاؤن میں زرعی یونیورسٹی کا ریسٹ ہاؤس بُک کروایا، فیملی کو ساتھ لیا اور پشاور کی راہ لی۔ ارادہ یہ تھا کہ آٹھ دس دن رہیں گے۔ پہلے آئی جی صاحب سے ملاقات ہوگی اور اس کے بعد پشاور اور آس پاس کو خوب اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں گے اور اگر اِس دوران پوسٹنگ ہوگئی تو اس کے مطابق نیا لائحہ عمل تیار کریں گے، ورنہ واپس لوٹ آئیں گے۔ شام پشاور پہنچ کر اگلی صبح امید وبیم کی کیفیت میں آئی جی صاحب سے ملنے روانہ ہوا۔ میں صوبہ میں نووارد تھا، نہ کوئی کام اور ماحول کاتجربہ اور نہ کسی سے کوئی تعلق وتعارف ۔ اس لئے میری زیادہ سے زیادہ توقع یہ تھی کہ جب کبھی مجھے لگانا ہوا توکسی دفتری پوسٹ پر لگادیاجائے گا۔بہرحال دفتر پہنچا ۔آئی جی صاحب تشریف رکھتے تھے۔ اطلاع کروائی ۔ 
آئی جی صاحب نے فوراً بلالیا ۔ وہ اکیلے تھے۔ میں سلام کرکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ فائلیں دیکھنے اور ڈاک نکالنے میں مصروف تھے ۔ میں کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ انہوں نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھااور نہ کوئی بات کی۔ میں اس سردمہری سے مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا اور اجازت چاہی ۔ آئی جی صاحب نے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہااور خود بدستور ڈاک نکالنے میں مصروف رہے۔ مزید کچھ دیر میں انہوں نے اپنا کام مکمل کیا ، آخری فولڈر بند کیا اور میری طرف متوجہ ہوئے ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد حرفِ مدعازبان پرلانے کیلئے میں ابھی مناسب الفاظ ہی سوچ رہاتھا کہ خود ہی بولے ’’میں آپ کو ایس ایس پی ایبٹ آباد لگارہاہوں‘‘ اور پھر ساتھ ہی مجھے ایبٹ آباد کے بارے میں ضروری معلومات اور ہدایات دینا شروع کردیں۔ حیرت سے میری زبان گُنگ ہوگئی۔ ایس ایس پی ایبٹ آباد صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک اہم اور پرائز پوسٹ سمجھی جاتی ہے جہاں کسی تجربہ کار اور علاقائی سیاست کی اونچ نیچ او ر اہل علاقہ کو سمجھنے والے، یا اہلِ اقتدار کے کسی قریبی عزیز ،یاپھر کسی چہیتے افسر کو لگایاجاتاہے۔عالمِ حیرت میں اضطراری طور پر میرے منہ سے نکلاکہ’’سر! آرڈر ہوگئے ہیں‘‘ کہنے لگے’’نہیں! ابھی ہوجاتے ہیں۔میں چیف سیکرٹر ی کو کہتاہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انٹر کام اُٹھا یا اور چیف سیکرٹری کو میرا نام بتاکر کہا کہ اس کے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر کردیں۔ حیرت پر حیرت، کیا یوں بھی ہوتاہے! میں آئی جی صاحب کا ٹھیک طرح سے شکریہ بھی ادانہ کرسکا اور بھیگی آنکھوں سے سلام کرکے باہر نکل آیا۔کچھ دیر تک اپنے حواس بحال کئے اورپھر ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس پہنچا۔ وہاں اطلاع پہنچ چکی تھی اور پھر ایک آدھ گھنٹے میں میرے بیٹھے بیٹھے محکمہ سروسز سے میرے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر جاری ہو گئے۔ اگلے روز میں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد جناب فیاض احمد طو روکو جو مجھ سے ایک بیچ سینئر تھے فون کیا اور پوچھا کہ میں کب آؤں۔ انہوں نے کہا وہ آئی جی صاحب سے بات کرکے جواب دیں گے ۔(آج جناب فیاض احمد طورو کا شمار پولیس سروس آف پاکستان کے چند بہترین اور نیک نام افسروں میں ہوتاہے)شام تک مجھے آئی جی آفس سے مطلع کیاگیا کہ چونکہ ان دنوں ایبٹ آبادمیں سرحد اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہورہاہے ،ساری صوبائی اسمبلی ،گورنر ،وزیراعلیٰ اور پوری صوبائی کابینہ وہیں موجود ہے۔سکیورٹی اورپروٹوکول کے علاوہ اِن لوگوں سے ذاتی جان پہچان اورواقفیت بھی بہت ضروری ہے ، لہذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ موجود ہ ایس ایس پی اسمبلی کے موجود ہ سیشن کے اختتام تک بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔ آپ جولائی کے پہلے ہفتے میں آ پس میں طے کرکے چارج لیں۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا! میں نے اس وقت کو غنیمت جانااور اپنے مجوزہ پروگرام کے مطابق پہلے پشاور کو اچھی طرح گھوم پھرکر دیکھااور پھر سوات، بحرین اور کالام کا رُخ کیا۔ پچھلے چند ماہ کی موسم اورحالات وو اقعات کی حدت اورتپش نے میرے جسم اور رُوح دونوں کو جُھلسا کر رکھ دیا تھا۔اِن حالات میں یہ سیروتفریح میری اور میری فیملی کیلئے قدرت کی طرف سے جھونکاء جانفزاء اور جنت نظیر وادیوں پر مشتمل پاکستان کے سب سے خوبصورت صوبے کی طرف سے ایک خیرمقدمی تحفہ تھا۔ہفتہ بھر کی بھرپور سیروسیاحت کے بعدہم تازہ دم ہوکر لاہور لوٹ آئے۔ بالآخر 4جولائی 1989کو میں لاہور سے سیدھا ایبٹ آباد پہنچا۔ اگلی صبح جناب فیاض احمد طورو نے اپنے دفتر میں میرا استقبال کیااور انتہائی پُروقار انداز میں ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج میرے حوالے کرکے خود ایس ایس پی پشاور کا چارج سنبھالنے کیلئے پشاور روانہ ہوگئے


http://dailypakistan.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-06-20/page-16/detail-6


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

حا لات کا جبر اور میرا پنجاب چھوڑنا

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Return from Sarhad صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے واپسی


ایبٹ آباد خوبصورت لوگوں کا خوبصورت اور ایک پُرامن ضلع ہے۔ میرے وقت تک یہاں جرائم بہت کم تھے۔ یہاں سال بھر میں اتنے سنگین جرائم (ڈکیتی، راہزنی، قتل، اغوا، اغوا برائے تاوان وغیرہ) وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے جتنے میری پچھلی تعیناتی کے ضلع گوجرانوالہ میں غالباً ہفتہ دس دن میں ہوجاتے تھے۔ یہاں کی پولیس شرافت، دیانت ، وضعداری اورعزت نفس کی پاسداری میں پنجاب پولیس سے بہت بہتر تھی ۔ مشتبہ افراد یا ملزمان پر بلاوجہ یا غیرضروری تشدد کا یہاں رواج نہ ہونے کے برابر تھا، تاہم تجربے ، پیشہ ورانہ استعداد کار، انسداد جرائم، امن وامان کے متوقع اور غیرمتوقع چیلنجوں سے نمٹنے اور تفتیشی صلاحیتوں میں پنجاب پولیس اس سے بہت آگے تھی۔ میں نے چارج سنبھالتے ہی ایبٹ آباد پولیس کو پنجاب پولیس کی خوبیوں کی طرف لانے اور اِسے زیادہ سے زیادہ متحرک اورمستعدبنانے کی کوششیں شروع کردیں۔دن اور رات کی گشتوں اورناکہ بندیوں کو نئے سرے سے منظم کیا۔ پولیس سٹیشن کے ریکارڈ کی درستگی اور اسے بروقت اور ہر وقت مکمل رکھنے پر خصوصی توجہ دی۔متوقع اور غیرمتوقع ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ایک ہر دم تیار فورس تیارکی اور اس کی تربیت اور عملی کارروائی کے لئے سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر (SOP)بنائے۔ جرائم کی تفتیش ، عدالتوں میں مقدمات کی پراسیکیویشن اور پیروی کے طریق کار میں ضروری ترامیم واصلاحات اور مانیٹرنگ کا جامع نظام ترتیب دیا۔میں نے کوشش کی کہ پنجاب پولیس کی ہر اچھی چیز یہاں متعارف ہوجائے۔

ان سب اصلاحات کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے اور بہت دیر تک قائم رہے، تاہم میرے دور میں ایبٹ آباد میں کوئی ایسا غیر معمولی یا سنگین واقعہ رونمانہ ہواجو مجھے یا ایبٹ آباد پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کوآزمائش میں ڈالتا، جس طرح کہ گوجرانوالہ میں (میں بعد میں آرپی او گوجرانوالہ بھی تعینات رہا) تب بھی اور اب بھی ہر دوسرے دن اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتاہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے چیلنج، البتہ یہاں بہت تھے، لیکن چونکہ میری اُس وقت تک کی تقریباً ساری سروس راولپنڈی اور لاہور کی تھی، جہاں اس قسم کی ڈیوٹیاں روزمرہ کا معمول ہیں، اس لئے میں اِن کی ادائیگی میں بہت طاق تھا اور میرے لئے اس میں کوئی نئی اور پریشانی والی بات نہیں تھی، بلکہ میں نے اس ڈیوٹی کی انجام دہی کو بھی پنجاب پولیس کے معیار پر اُٹھایا اور تمام سیکیورٹی پلان از سرِنو ترتیب دیئے اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا۔ خیبرپختونخوامیں ہزارہ ڈویژن ،خصوصاً ضلع ایبٹ آباد، سیاسی طور پر بہت زرخیز اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ تب تو اس کی اہمیت اوربھی زیادہ تھی، کیونکہ 1988ء کے انتخابات میں ،جس کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی، پورے ہزارہ ڈویژن میں ایک دو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیٹیں مسلم لیگ نے جیت لی تھیں۔ یہ خطہ شروع سے ہی مسلم لیگی رہاہے، لیکن پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے جوڑ توڑ کرکے اس خطے کے تقریباً تمام مسلم لیگی ارکان صوبائی اسمبلی کامسلم لیگ کے اندر ہی ایک فارورڈ بلاک بنواکر اسے اپنے ساتھ ملالیا اور انہی کی بدولت صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اِس فارور ڈ بلاک کو بہت سی وزارتیں دی گئیں اور اُن کی ہر طرح خاطر داری کی جاتی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس سارے عمل میں پولیس کوقطعاً استعمال نہ کیاگیا۔ 

مجھے ایبٹ آباد کی اپنی پوری تعیناتی کے دوران حکومت یا خود اس فارورڈ بلاک کے ممبران کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت،اشارہ یاترغیب نہ دی گئی کہ ان لوگو ں کا خصوصی خیال رکھاجائے۔مجھ پرحکومت یا اِن ممبران کی طرف سے یاکسی بھی طرف سے کسی قسم کا کوئی سیاسی یامحکمانہ دباؤ نہیں تھا، جس پر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ ایبٹ آباد چونکہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اس لئے یہاں سارا سال عوام وخواص اور سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ حکومتی شخصیات اور ادارے بھی اس شہر میں، خصوصاً گرمیوں میں، آنے کے موقع کی تاک، بلکہ تراش میں رہتے ہیں۔ میرے دور میں بھی گورنر، وزیراعلیٰ، مرکزی اور صوبائی وزراء ،قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اراکین اورسینئرو جونیئر افسران کا آناجانا، بلکہ بار بار آنا جانا، لگارہا۔بہت سے سیاستدانوں اور افسران کے نتھیاگلی میں اپنے ذاتی بنگلے تھے ۔ دوبار صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان سرکاری دورے پر ایبٹ آباد آئے ۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو تربیلا کے مقام پر دو روزہ کیبنٹ میٹنگ رکھ لی، جس میں تمام وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی سیکرٹری بھی شریک ہوئے۔ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد اور چند دیگر اعلیٰ صوبائی حکام کو تو بہرحال موجود ہوناہی تھا۔ فوجی اداروں میں سارا سال مختلف تقاریب جاری رہتی تھیں۔ سال میں دوبار تو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آؤٹ ہوتی تھی جو ایک بہت بڑ ا ایونٹ ہوتاتھا۔دوست احباب اور عزیزواقارب کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ یہ فخر رہے گا کہ مجھے جاننے والے کئی ریٹائرڈ او ر حاضر سروس آئی جی صاحبان اور دیگر سینئر افسران نے محض میرے ایبٹ آباد میں تعینات ہونے کی وجہ سے یہاں کی سیرکا پروگرام بنایا اورمجھے شرفِ میزبانی بخشا۔ چند ماہ قبل آئی جی صاحب اور ایس ایس پی ایبٹ آباد نے بے پنا ہ دلچسپی اور خرچ کے ساتھ نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کے پولیس ریسٹ ہاؤسز کی تعمیروتزئینِ نوکی تھی، جوکوئی ان میں ٹھہرتا باغ باغ ہوجاتا۔ میری ایبٹ آباد تعیناتی کے پہلے سال ڈاکٹر عارف مشتاق اے ایس پی ،جو 2017میں آئی جی کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائرہوچکے ہیں ،کوپولیس اکیڈمی کی تربیت سے فراغت پر عملی ٹریننگ کے لئے ایبٹ آباد بھجوایاگیا۔ اگلے سال میجر مبشراللہ ایس پی(بعد میں ڈی آئی جی) جن کا حال ہی میں لاہور میں انتقال ہوا ہے اور علی ذوالنورین اے ایس پی( آج ایڈیشنل آئی جی ) کو بھجوایا گیا۔میں ان کی کس حد تک اور کس معیار کی ٹریننگ کرسکا، اس کا صحیح جواب تو یہ افسران خود ہی دے سکتے ہیں، لیکن ان کی میرے پاس موجودگی میرے لئے بہت خوشی اور تقویت کاباعث تھی۔ان تینوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ انہی دنوں ہمسایہ ضلع مانسہر ہ میں شعیب دستگیر (آج ایڈیشنل آئی جی ) اور خواجہ شمائیل (آج ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب) بطور اے ایس پی اور اے سی عملی تربیت حاصل کررہے تھے اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے ناطے موقع بہ موقع ملتے رہتے تھے ۔

 میرے ڈی آئی جی جناب میجر(ر) فقیر ضیاء معصوم ،بڑے مستعداورمتحرک افسر تھے۔مجھ پر بہت شفقت اور اعتماد کرتے تھے۔ کمشنر جناب عبدالحمید خان کا معاملہ بھی ایساہی تھا ۔ڈپٹی کمشنر عطاء اللہ خان جو سروس اور عمر میں مجھ سے چند سال جونیئر تھے، کے سا تھ تعلقات بے تکلف دوستی میں ڈھل گئے تھے۔ یہ اُس وقت صوبہ سرحد کی بہترین ٹیم شمار ہوتی تھی، جسے دوسرے ڈویژنوں اور اضلاع کے افسران رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایبٹ آباد میں تعینات ہوئے تقریباً چودہ ماہ ہوچلے تھے ۔میری پوری سروس، تب سے اب تک ، کا یہ سب سے خوبصورت دور تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عملی تفسیرکہ ’’ہر تنگی کے بعد راحت ہے‘‘۔نہ کام کا بوجھ، نہ جرائم کاخوف ۔ نہ سیاستدانوں کی طرف سے جائز وناجائز کام کرنے کا دباؤ،نہ افسران بالا کی طرف سے بلاوجہ کی نکتہ آرائیاں۔ میں اپنے فرائضِ منصبی کی کما حقہٌ ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد کی دلکشیوں اور رعنائیوں سے خوب خوب لطف اندوز ہورہاتھا۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتاتھا، پھر اگست 1990ء میں ایک دن اچانک صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان نے مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں کو چلتا کیا اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کردیں۔ مرکز میں جناب غلام مصطفی جتوئی اور صوبہ سرحد میں جناب میر افضل خان کو بالترتیب نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ مقررکر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں تعینات افسران کی اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی۔ صوبہ سرحد میں بھی ایسے ہی ہوا۔ کوئی ایک افسر بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہا۔ تمام فیلڈ افسران، دفتر ی پوسٹوں پر اور دفتر ی پوسٹوں پر تعینات تمام افسران، فیلڈ پوسٹوں پر تعینات کردیئے گئے۔ پورے صوبے کی انتظامیہ بدل گئی۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں صوبہ سرحد سے صرف تین افسران کو صوبے سے باہر، یعنی واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجاگیا ۔چیف سیکرٹری جناب عمرخان آفریدی اور آئی جی جناب محمد عباس خان کو، کہ ان جیسے مرتبے اور مقام کے افسر کو صوبے میں کسی اورجگہ نہیں کھپایا جاسکتاتھا ،لیکن ان کے ساتھ ساتھ مجھ غریب الدیار ایس ایس پی ایبٹ آباد کو بھی۔ جناب محمد اعظم خان کو نیا چیف سیکرٹری اور جناب سید مسعو د شاہ (بعد میں آئی جی پنجاب بھی) کو نیا آئی جی صوبہ سرحد تعینات کردیاگیا۔ میری جگہ جناب عبداللطیف خان گنڈا پور تعینات ہوئے۔ ایک بار پھر اندھیری اور اَن دیکھی راہوں پر آبلہ پا روانہ ہونے سے پہلے میں نے کوشش کی کہ کسی طرح صوبہ سرحد میں ہی رہ جاؤں ،خواہ مجھے کسی بھی دفتر ی پوسٹ پر لگادیاجائے ۔
 اس سلسلے میں نئے آئی جی صاحب سے ملا بھی، لیکن اس وقت حالات کا جبر کچھ ایسا تھا کہ جناب سید مسعود شاہ جیسی انتہائی نفیس،شفیق اور سراپا اِخلاق واخلاص شخصیت (جیسا کہ بعد میں جب وہ آئی جی پنجاب تعینات ہوئے تو میں نے اُن کے ماتحت بطور آرپی او فیصل آباد اور گوجرانوالہ کام کرتے ہوئے انہیں پایا ) چاہتے ہوئے بھی میرے لئے کچھ نہ کرسکے۔ پورے ایک سال اور دو ماہ ایس ایس پی ایبٹ آباد رہنے کے بعد میں نے 5ستمبر 1989ء کو اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیا اور تیاری کا مقررہ وقت گذار کر 15ستمبر 1989ء کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کردی۔ بعد میں ملنے والی مصدقہ وغیر مصدقہ معلومات کے مطابق میرے صوبہ سرحد میں نہ رہ سکنے کی وجہ یہ بنی کہ جب افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوا اور اس دوران ایک ایک افسر پر غورہورہاتھا تو بار بار میرے نام پر ایک دوسرے سے پوچھا جاتا کہ یہ الطاف قمر کون ہے؟ کدھر سے آیاتھا؟ کس نے بھیجاتھا؟ اس افسر کی کیا بیک گراؤنڈ ہے؟ فیصلے کرنے والے یہ سب لوگ نئے تھے ۔اِن میں سے مجھے کوئی نہیں جانتاتھا، اس لئے اِن میں سے ہر کوئی میرے بارے میں کوئی کلمہ خیر کہنے یا میری’’ نیک چلنی ‘‘ کی ضمانت دینے کے بارے میں محتاط تھا، لہٰذا اتفاق اس بات پر ہوا کہ یہ ضرور پیپلز پارٹی کا کوئی خاص بندہ ہے، جسے پنجاب سے لاکر سیدھا ایبٹ آباد کی اہم اور پرائز پوسٹ پر بٹھا دیاگیاتھا، لہٰذا اسے وہیں بھیج دیاجائے، جہاں سے آیاتھا۔نیرنگئ زمانہ دیکھئے کہ گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے مجھے مسلم لیگ کا وفادارسمجھ کر بطور سزا واپس بلایا، اور صوبہ سرحد بھیج دیا۔وقت بدلا ،اور سرحد سے مجھے پیپلز پارٹی کا وفادار سمجھ کر واپس بھیج دیاگیا،حالانکہ میں زمانہ طالبعلمی سے ہی نہ کبھی مسلم لیگ کا ووٹرسپورٹررہا اور نہ پیپلز پارٹی کا۔ یکے بعد دیگرے، بہاولنگر، گوجرانوالہ اور اب ایبٹ آباد سے غیرروائتی انداز میں ہونے والی یہ میری تیسری ٹرانسفر تھی جس میں انتہائی غیر سیاسی اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض کی بجاآوری کرنے کے باوجود میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی کی بھینٹ چڑھا۔یارب!یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں؟
dailypakistan.com.pk


Nawaz Sharif Really an Indian Asset?







" A nation can survive its fools, and even the ambitious. But it cannot survive treason from within. An enemy at the gates is less formidable, for he is known and carries his banner openly. But the traitor moves amongst those within the gates freely, his sly whispers rustling through all the alleys, heard in the very halls of government itself. For the traitor appears not a traitor; he speaks in accents familiar to his victims, and he wears their face and their arguments, he appeals to the baseness that lies deep in the hearts of all men. He rots the soul of a nation, he works secretly and unknown in the night to undermine the pillars of the city, he infects the body politic so that it can no longer resist. A murderer is less to fear"

[Marcus Tullius Cicero]

Image result for Nawaz Sharif Really an Indian Asset

<<<نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی - تجزیے ، سوالات اور جوابات


The bombing of lawyers’ protests in Quetta on 8 August 2016 in which dozens of lawyers and civilians got killed at a hospital. All fingers are pointed to the Indian RAW. The chief minister of Baluchistan blamed RAW for these terrorist attacks. Pakistani prime minister Nawaz Sharif did not issue any statement about Indian involvement. He is also Foreign Minister of Pakistan so he saved Indians from two offices in his custody. That is how a good agent perform at the right time?

Image result for Nawaz Sharif Really an Indian Asset


Few months ago an old friend from Government College Lahore and a PML-Nawaz politician came to London on business trip. We had a meeting after 26 years. He said to me: “I read your articles, watch your programs but I have one complaint to you that you say that my leader Nawaz Sharif is an Indian Agent”. I said to him: “do you think I will write this about Nawaz Sharif without any evidence”? Actually it was another Old Ravian (former students of Government College) like me, you and Nawaz Sharif, a former ISI officer who wrote in his book. So ISI was not sleeping but politicians including Zia-ul-Haq were complicit in promoting this RAW asset.



According to a book, “Air Massacre over Bahawalpur” page 341, written by Commodore Tariq Majeed: “Nawaz Sharif’s Indian Connection: India’s RAW hosted Nawaz Sharif’s visit to Delhi in 1978 and cultivated him in some ways, but he had been picked up and programmed by RAW’s masters, CIA and Mossad, to serve, like Ms Bhutto, the Zionist interests. What gives special significance and authenticity to this disclosure is that its author was a member of the key staff in ISI when Nawaz was being hooked by RAW. This is not like a spy story of James bond 007 stealing a secret of the enemy. What Nawaz Sharif and others in his team are doing is much more sophisticated and subtle. In modern world agents like Nawaz Sharif serve their masters in a very subtle way for example: “it was Nawaz Sharif who confirmed the identity of only surviving alleged terrorist of Mumbai Attacks which was quoted all over the world”. On the other hand, former IG Police of Mahrashtara said in his speech that Ajmal Kassab was in custody of the Indian Agency at the time of Mumbai Attacks. He is seeking re investigations of Mumbai Attacks and fighting case in the Indian High Court and case hearing is due in October 2016. I have spoken to him and he has confirmed to me that a trial hearing is due in October this year. Nawaz Sharif has undermined Pakistan from all sides be it economy, foreign affairs, defence or international image. For example, Nawaz Sharif did not appoint:

  1. People of Pakistan are still in shock for some time with the actions of Nawaz Sharif on the issue of 18th Amendment when he seemingly forced to support pro-Indian agenda parties like ANP/MQM and PPP. His links with Indians are not as simple and transparent as it looks. He is apparently a fan of NDTV and Bombay Palace Restaurant in London. Nawaz Sharif asked me at an APC in London in 2006 ‘Have you seen NDTV reporter’, I replied No Mian sab and can I help you at all’. His love for Indians is never ending.
  2. A full time Foreign Minister since 2013.
  3. Nawaz Sharif did not appoint a full time Defence Minister.
  4. Nawaz Sharif’s finance minister Ishaq Dar a money launderer and a liar has business interests with the Indians in Dubai. He is main defender of Indian terrorist group MQM-A.
  5. His closest ally Mahmood Khan Achakuzai declared KPK province as part of Afghanistan in an interview with Afghan newspaper but Nawaz Sharif did not say anything to him or suspend his membership or called for explanation.
  6. He has been supporting Indians on Kashmir issue and never raised this pressing matter at any international forum where Indian Prime Minster Modi was present from Russia to France to New York.
Nawaz Sharif played well on the Indian lines and had all these messengers from singer Adnan Sami Khan to actress Sharmila Tagoor visiting his estate in Raiwind.
In past few months Indian RAW has sleepless nights and hard days to save its asset ‘Nawaz Sharif’, the prime minister of Pakistan. Nawaz Sharif spent over 2 months in London for a minor operation which Pakistani doctors are doing daily in Pakistan.

In the meanwhile, Indian sponsored Afghan Army attacked on the Torkham Border post and killed a Pakistani major and injured few soldiers. Nawaz Sharif dis not uttered a word. He is totally numbed since the arrest of active RAW agent Kulbushan Yadav aka (Kulbhushan Naqvi) code named ‘Monkey’. Some analysists also believe that sudden eruption of movement in Kashmir is also linked with supporting Nawaz Sharif strategy to put pressure on Pakistan Army and General Raheel Sharif.

His businesses with India and illegal wealth abroad is matter of security risk be in Britain or elsewhere. His arms can be twisted at any time and his wealth could be confiscated at any time as what is known in British law ‘Proceeds of Crimes’. He has no receipts of his wealth and panama leaks documents are enough to twist his both arms and wring his neck.

Even a child knows when you deliberately play with the weak team you are part of ‘match fixing’ and playing for the Indians not Pakistan. Apart from himself his toxic ministers who hates the army are Khawaja Asif and Pervez Rashid both have openly criticised the institutions of Pakistan. Both Nawaz Sharif and Pervez Rashid support GEO’s treacherous campaign against ISI and Army openly. If they did in Britain they would have been in the bottom of River Thames but Pakistan is a country full of surprises and enemy agents.
All in all, Nawaz Sharif is the most disgraced and corrupt third time prime minster of Pakistan. He has damaged Pakistan more than all the terrorist groups and enemy forces. He is an ally of Yadave and Modi in Pakistan.


(Dr Shahid Qureshi is senior analyst with BBC and editor of The London Post. He writes on security, terrorism and foreign policy. He also appears as analyst on Al-Jazeera, Press TV, MBC, Kazak TV (Kazakhstan), Turkish TV, LBC Radio London. He was also international election observer for Kazakhstan 2015 and Pakistan 2002. He has written a famous book “War on Terror and Siege of Pakistan” published in 2009. He is a PhD in Political Psychology and also studied Law at a British University)

.......................................................

thelondonpost.net/baluchistan-terrorism-nawaz-sharif-really-an-indian-raw-asset-2/

Aug 9, 2016 - Pakistani Prime Minister Nawaz Sharif attends the closing session of 18th South Asian Association for Regional Cooperation (SAARC) summit ...

Nawaz Sharif Really an Indian RAW Asset? An Eye Opener - Siasat.pk ...

https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?...Nawaz-Sharif-Really-an-Indian...Asset...

2 days ago - 3 posts - ‎3 authors
Pakistani Prime Minister Nawaz Sharif attends the closing session of ... A brief meeting betweenIndia's Prime Minister Narendra Modi and his ...
You visited this page on 8/2/17.

Nawaz Sharif among richest politicians in ... - The Indian Express

indianexpress.com › World

Apr 23, 2016 - The value of his assets in 2011 was Rs 166 million, which swelled to Rs 261.6 million in 2012 and then to Rs 1.82 billion in 2013, making him a declared billionaire. ... Amidst the Panama Papers leak row, Prime Minister Nawaz Sharif has emerged as one of the richest politicians in ...

Nawaz Sharif's Business Investments with India By Dr Shahid Qureshi

www.insaf.pk/.../18230-nawaz-sharif-s-business-investments-with-india-by-dr-shahid-...

Dec 28, 2015 - On the other hand, Nawaz Sharif's personal businesses with India ... was coming into Pakistan almost tax free as legitimate asset and re- invested. ... out and Pakistan Rangers is in the dock who actually understood for the first ...

Interesting facts about the Sharif family and its business interests ...


www.rediff.com › Business

Jan 2, 2016 - According to a Pakistani website, Nawaz Sharif's personal holdings amount to ... This makes it incumbent upon us Indians to know better, the family and ... both Nawaz Sharif and Shahbaz Sharif's family income and assets as ...