Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Pakistan’s phoenix complex

Image result for phoenix
Wanted is a superhero at all times. Our hero complex is like the Phoenix, a mythical creature that gets burnt but rises from the ashes again and again. It’s an emblem of immortality, rekindling hope and optimism. Pakistanis, the majority of whom are semi-literate, ignorant and poor, have, since their country’s independence, found and lost their Phoenix-like leaders who have cyclically fooled, hoodwinked, cheated and tricked them, only to perish and be reborn with a different name and a different face.

October 12, 1999 arrived with the sacking of Prime Minister Nawaz Sharif by then army chief General Pervez Musharraf. Then came the famous Referendum of 2002. On a blustery April morning, we went to Pakistan Consulate General in New York to vote ‘Yes’ allowing Musharraf to continue as president for five years. He promised that he would banish the “corrupt duo”, Nawaz Sharif and Benazir Bhutto, forever. We believed him. Musharraf broke his promise.

General Kayani succeeded Musharraf as the chief of army staff a month before Benazir’s assassination. His promotion, direct from ISI chief to army chief, was perhaps a first in the history of the Pakistan Army. We looked to ‘General Clean’ to rid us of the twin menace: corruption and terrorism. This was not to be. Suicide bombings also climaxed during his tenure.

Chief Justice Iftikhar Chaudhry seized our sympathy after General Musharraf showed him the door. Overnight, he became our crusader against injustice. Enter Aitzaz Ahsan and his elite crew of attorneys — Munir Malik, Ali Ahmad Kurd, Hamid Khan, Justice (retd) Tariq Mahmood and Athar Minallah. These smoothies dazzled us with their zealous support for their ‘chief’ whipping up mass agitation bordering on hysteria across Pakistan. Their sweat and toil won the day. “The chief justice is phenomenal. Wait and see what he does,” Imran Khan raved to me in an interview after the restoration of the chief justice. The CJ performed and cancelled the NRO (National Reconciliation Ordinance). We danced with joy and prayed for his long life!

Indeed, the serotonin-filled chief justice fulfilled his vow before Allah to serve his people with honesty, truth and integrity after his restoration. But the first batch to be disillusioned by the chief justice was his star warriors, the same attorneys who sang his praise day and night. Aitzaz Ahsan & Co, began lining up for TV interviews and in guarded tones hinted at their colossal disappointment in their ‘hero’. Finally, the CJ’s bubble burst with allegations by real estate tycoon Malik Riaz, who claimed to have ‘bribed’ CJ’s son Arsalan Iftikhar. We had to eat crow, as the Americans say, for having been proven wrong about the ‘Phoenix’ we had created in the media. Iftikhar Chaudhry was our biggest letdown.

August 14, 2014 was the day when the destiny of Pakistan was to change forever according to Imran Khan. He vowed to send the present bunch of the ‘corrupt’ packing and bring forth a real democracy. We wished the Kaptaan God speed. He would endow citizens from all strata of life their inalienable rights to life, liberty and happiness. Somewhere along the route, Imran Khan lost his mojo.

Making a cameo appearance in the hall of heroes was Shahid Aziz. Musharraf made him chairman NAB. At last, we had a man who would fumigate the corrupt, spineless, idiotic organisations prostituting for the government of the day. Shahid Aziz had an earnest look in his fiery eyes. He was a fake, alleged some, including senior journalist Zahid Hussain who tore him to pieces by calling him a “hypocrite”. Another who won our trust was General Shuja Pasha. He chased the Memogate scandal like a fox, hunting Husain Haqqani, elevating the shady character Mansoor Ijaz to a Phoenix. But Ijaz turned out to be a mere ringside commentator at naked female wrestling matches called “Stupidisco,” reported the Associated Press.

Army Chief General Raheel Sharif today is our man of the hour. “He comes from a family of shaheeds,” say his admirers, “he will not let Pakistan down.” Amen!

Pakistan’s phoenix complex; By Anjum, The writer is a journalist with over 30 years of experience

http://tribune.com.pk/story/949562/pakistans-phoenix-complex/
https://en.wikipedia.org/wiki/Phoenix_(mythology)
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

پاکستان کا مرضِ ققنس


ہم پاکستانیوں کو اس وقت ایک بطل جلیل یعنی سپر ہیرو درکار ہے۔سپر ہیرو ز کے لئے ہماری اس چاہ کا مرض کسی ققنس کی مانند ہے۔ ققنس ایک دیومالائی پرندہ ہے جو اپنی بلند پروازی کی بدولت جل کر راکھ ہو جاتا ہے لیکن اپنی ہی راکھ سے یہ دوبارہ جنم لے لیتا ہے۔یہ پرندہ عدم زوال، احیاء، امید اور مثبت خیالی کی علامت ہے۔نیم خواندہ، ان پڑھ، جاہل اورغریب لوگوں پر مشتمل پاکستانیوں کی اکثریت آزادی کے وقت سے اپنے ان ققنس نما رہنماؤں کوحاصل کر کے پھر ان سے محروم ہوتی آئی ہے۔یہ ایک چکر ہے۔ یہ لیڈر عوام کو دھوکہ دے کران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں چکمہ دے کر ختم ہو جاتے ہیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد نیا نام اور نئی صورت لے کر پھر جی اٹھتے ہیں۔
12اکتوبر 1999ء کا دن آیا تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو معزول کر دیا۔ اس کے بعد 2002ء کا مشہور و معروف ریفرنڈم آیا۔وہ اپریل کی ایک صبح تھی۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ وقفے وقفے سے چل رہے تھے، جب ہم نیویارک میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل گئے تاکہ جنرل مشرف کے دورِ صدارت میں مزید پانچ برسوں کی توسیع کی حمایت میں ووٹ دے سکیں۔انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی کرپٹ جوڑی سے ہمیں ہمیشہ کے لئے نجات دلا دیں گے۔ہم نے ان کا یقین بھی کیا‘ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ توڑ ڈالا!
بے نظیر بھٹو کے قتل سے ایک ماہ قبل جنرل کیانی نے فوجی سربراہ کے طور پر مشرف کی جانشینی سنبھالی۔ اس سے قبل وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ آئی ایس آئی کی سربراہی سے فوجی سربراہی تک یہ ترقی پاکستانی فوج کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوئی۔ اس ''جنرل کلین‘‘ سے ہمیں امید تھی کہ یہ ہمیں کرپشن اور دہشت گردی سے نجات دلا دیں گے؛ تاہم اس کی بجائے ریئل اسٹیٹ کے سودوں میں ان کے خاندان کے دولت کمانے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ان کے دور میں خودکش حملے بھی عروج کو پہنچے۔سو کیانی صاحب بھی فلاپ ہو گئے!
چیف جسٹس افتخار چودھری کو جب جنرل مشرف نے اپنے عہدے سے برطرف کیا تو ہم سب کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں۔بے انصافی کے خلاف وہ ہمارے سپاہی ٹھہر ے۔ اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء کی اشرافیہ منیر ملک، علی احمد کرد، حامد خان، جسٹس (ر) طارق محمود اور اطہر من اللہ بھی ان کی حمایت میں آگے آئے۔اپنے چیف کے لئے ان لوگوں کے جوش نے پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کے جذبات میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ چیف جسٹس بحال ہوئے تو عمران خان نے ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کے بارے میں کہا کہ چیف جسٹس ایک بے مثال آدمی ہیں۔ انتظار کیجئے اور دیکھتے جائیے کہ وہ کرتے کیا ہیں۔ چیف جسٹس نے کچھ کارکردگی بھی دکھائی اور این آر او کو منسوخ کر دیا۔ ہم لوگ خوشی سے ناچ اٹھے۔ ہم نے انہیں لمبی عمر کی دعائیں دیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی بحالی کے بعد چیف جسٹس نے خدا کے ساتھ کئے اپنے اس عہد کو نبھایا کہ وہ دیانت امانت اور صداقت کے ساتھ اپنے لوگوں کی خدمت کریں گے، لیکن جو گروہ سب سے پہلے ان سے برگشتہ ہوا، وہ ان کے اپنے ہی جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ یعنی وہی وکلاء جو پہلے دن رات ان کی مدح میں ترانے گاتے تھے۔وہی اعتراز احسن اور ان کے ساتھی اب ہمیں ٹی وی چینلوںپر آکر محتاط لہجوں میں یہ بتا رہے تھے کہ وہ اپنے ''ہیرو‘‘ سے کس قدر مایوس ہیں۔پھر آخر کار چیف جسٹس کا بلبلہ اس وقت پھٹ گیا جب ایک اہم شخصیت نے الزامات لگائے کہ انہوں نے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کو رشوت دی تھی۔میڈیا میں ہم نے جو ققنس تخلیق کیا تھا، اس کے بارے میں غلط ثابت ہونے پر ہم سب یقینا بہت شرمسار ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ہمیں سب سے زیادہ مایوس کیا۔
پھر چودہ اگست 2014ء کا دن آیا۔ اس دن عمران خان کے بقول پاکستان کی قسمت ہمیشہ کے لئے بدلنے والی تھی۔ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ سیاستدانوں کی موجودہ کرپٹ کھیپ کو رخصت کر کے وہ ایک حقیقی جمہوریت قائم کریں گے۔ہم نے کپتان کو کامیابی کی دعائیں دیں۔ وہ اس ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کو زندگی، آزای اور مسرت کے حقوق دینے جا رہے تھے۔ تاہم کہیں نہ کہیں 
راستے میں عمران خان نے اپنا سحر کھو دیا۔
ہیروز کے اس مجمع میں مختصر سی جھلک ایک اور ریٹائرڈ فوجی جرنیل نے بھی دکھائی۔ موصوف کا نام شاہد عزیز تھا۔ مشرف نے انہیں نیب کا چیئرمین بنایا تھا۔ہمیں لگا تھا کہ یہ ہی وہ آدمی ہیں جو آخر کار اس کرپٹ، بودی اور احمقانہ تنظیم کی تطہیر کر دیں گے جو روز اول سے حکومت کی داشتہ بنی ہوئی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل(ر) شاہد عزیز اپنی آتشیں آنکھوں میںاخلاص کی جھلک رکھتے تھے۔ تاہم بعض لوگوں کے خیال کے مطابق وہ فراڈ اور تصنع سے پر تھے۔ سینئر صحافی زاہد حسین نے تو انہیں جھوٹا اور منافق کہہ کر ان کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔آئی ایس آئی کے ایک اور کار آگاہ بھی ایسے تھے جن پر ہم نے بھروسہ کیا لیکن وہ ویسے ثابت نہیں ہوئے جیسا ہم نے ان کے بارے میں سوچا تھا یعنی جنرل شجاع پاشا! وہ صحافیوں کو ذاتی پیغامات کے ساتھ ای میلز بھیجنے کے کافی شوقین تھے۔ جب بھی ہمارے ان باکس میں ان کی طرف سے کوئی ای میل آتی توہم قسم کھا کے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان کے لئے ان کی محبت درجہ اتم کو پہنچی ہوئی ہے۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ میمو گیٹ سکینڈل کا پیچھا کیا۔ حسین حقانی کو ہدف پہ لئے رہے۔اس طرح انہوں نے منصور اعجاز جیسے مشکوک کردار کو ساکھ بخشی۔ وہی منصور اعجاز جس نے وہ میمو طشت از بام کیا تھا جو مبینہ طور پر اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے فوجی بغاوت کی راہ روکنے میں امریکیوں سے امداد طلب کرنے کے لئے لکھا تھا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے راتوں رات منصور اعجاز ققنس کے درجے پر فائز ہو گئے تھے۔بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہمارا یہی ققنس ''Stupidiscoـ‘‘ کے ویڈیو میں بے لباس عورتوں کی کشتی پر کمنٹری کرتا پایا گیا۔جنرل پاشا اور ان کے اس وقت کے باس جنرل کیانی دونوں پر جاوید ہاشمی نے اقربا پروری کا الزام لگایا ہے۔ ہاشمی صاحب عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے لگائے گئے یہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں۔ تاہم آئی ایس پی آر اور پی ٹی آئی کی تردیدوں کے باوجودبہتوں کو یقین ہے کہ جاوید ہاشمی سچ بول رہے ہیں۔
آج صرف ایک ہی انسان ایسا ہے جو دوسروں سے الگ اور ممتاز نظر آتا ہے۔ سب اس کی عزت کرتے ہیں اور اسے محبت اور احترام سے دیکھتے ہیں یعنی ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف۔ ان کے مداح کہتے ہیں کہ وہ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستان کو دھوکہ کبھی نہیں دیں گے۔ پچاس برس قبل جنرل راحیل شریف کے ماموں میجر عزیز بھٹی( نشانِ حیدر) 1965ء کی ہند و پاک جنگ میں شہید ہوئے تھے اور آرمی چیف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف (نشانِ حیدر) اکہتر کی ہندو پاک جنگ میں شہید ہوئے۔
تاہم جنرل راحیل شریف کے کردار پر حتمی منصفی تاریخ ہی کرے گی۔ایک انگریزی روزنامے کے کالم نگار ان کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: اس وقت اور آنے والے وقتوں کے لئے بھی جنرل راحیل کو ایک نجات دہندہ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ اس وقت ہمارے ملک کے مقبول ترین فرد ہیں، اس سرزمین پر ان کے ہم پلہ کوئی رہنما نہیں۔ ان پر اس بارانِ توصیف و ستائش اور وفاداری کی قسموں کا کیا اثر ہوتا ہوگا؟ کیا ان کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت ان تقاضوں میں مزیدشدت کا باعث نہیں بنے گی کہ ان حالات میں ان کا دخل زیادہ گہرائی، زیادہ وسعت اور زیادہ مدت کے لئے بلکہ حال کے مقابل زیادہ واضح طور پر بھی ہونا چاہئے؟
سو جنرل راحیل شریف اس وقت پاکستان کے ققنس ہیں جن کے لئے ہم سبھی دعا گو ہیں کہ ان کے پر کبھی نہ جلیں اور ان کی پرواز ہمیشہ بلند سے بلند رہے تاکہ وہ ہمارے ایک لازوال ہیرو بن جائیں۔ آمین! 

- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/anjum-niaz/2015-09-03/12506/52214273#tab2

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Overall 2 Million visits/hits
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~