Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Politics and conflict

Just a reminder: politics is not about grabbing and retaining power by every fair and foul mean, or using power for personal ends. Another reminder: since politics is essentially about power and power relations, it is a universal practice, and happens everywhere, whether you have a state or stateless tribal society, and whether you are a strong or a weak state. Also, there is good politics and bad politics. I am using the idea of good or bad in politics from a citizen’s perspective. From this end of the power spectrum, good politics is about ensuring wellbeing, security, stability, happiness, freedom and generally the progress of society, where an individual citizen finds opportunity to pursue the ideals of his life.

The bad politics is quite the opposite of it; it diminishes the individual, shortens life, and what happens around the individual becomes nasty and brutish — to paraphrase Thomas Hobbes (1588-1679), one of the great English thinkers of all time. Nothing of the sort of politics practised today in Pakistan has anything common with that period of British history, political controversies and clash of ideas that were prevalent in Hobbes’s time. However, the one thing that makes Hobbes relevant to present-day Pakistan and many other societies is his enduring idea of anarchy, disorder and conflict in society, and how these take the civility, civilisation and even hope of life out of citizens. Actually, it is his explanation of what makes the difference between social order or peace, and disorder or conflict. Politics is the exercise of power to protect, first and foremost, life and property. Everything good follows from these two protections. These are indeed the primary functional responsibilities of the state, any state, today.

What about liberty? Hobbes relegated it to secondary position or even no position at all in the conflict of power and ideas in his times. He defended monarchy and autocracy because he feared anarchy, disorder and conflict in society. Like many thinkers of the preceding Greek classical age, he had no faith in the wisdom and intelligence of our celebrated common man. Many elite theorists and autocracies around the world, like our military regimes and the defenders of military-controlled political order, have premised their vision and ideas on that part of human history and knowledge of societies that draw a very pessimistic view of man and his power to shape the political world.

However, the idea of liberty, associated with John Locke (1632-1704) and the deeper passion and meanings of his works, have influenced the course of history and development of modern ideas from the time of the Enlightenment thinkers to modern-day democrats. The American revolutionaries were so much influenced by his thoughts that they liberally borrowed his words in writing the Declaration of Independence — life, liberty and pursuit of happiness, happiness being more comprehensive than Locke’s formulation of “life, liberty and property”.

Pakistan has lived through and continues to balance itself between the pulls of order, meaning security and liberty, which are at the foundation of our constitutional order. There is considerable disillusionment with the bad politics of pseudo-democrats in the country. Frankly speaking, their bad politics in the name of the common man in every part and province of the country has created disorder and conflict in society — greed, corruption and misuse of power. When this happens, the common citizen loses his power to elect the right civil government, as well as the ability to hold it accountable for its misdeeds.

This may push society to the basic instinct of looking for security — and the end of ‘democracy’. Never must we allow pseudo-democrats to push the country in that direction.
Courtesy: The Express Tribune
By Rasul Bakhsh Rais; The writer is a professor of political science at LUMS

سیاست اور نظریاتی کشمکش
یاددہانی کے طور پرعرض کرتا چلوں کہ سیاست کسی بھی جائزو ناجائز طریقے سے اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کا کھیل نہیں ، اور نہ ہی یہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتی ہے۔ اس دوران یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے لیے سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی کمزور ریاست ہو یا طاقتور ،یا غیر ریاستی قبائلی معاشرہ، سیاست کی ہر جگہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیاست اچھی بھی ہوتی اور بری بھی۔ میں اچھی یابری سیاست کا تصور شہریوںکے نقطہ ٔ نظر سے دیکھتا ہوں۔
اگر اقتدار کے حصول کے حوالے سے سیاست کو دیکھیں توملکی سکیورٹی، استحکام، عوامی فلاح، سماج اور معاشی ترقی کے لیے سیاست ایک ذریعہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے ذریعے ایک ایسے معاشرے کا قیام ممکن ہوسکتا ہے جس میں افراد اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کرتے ہوئے زندگی میں بلند مقام تک پہنچ سکیں۔ اس طرح سیاست ایک اچھی چیز ثابت ہوتی ہے۔ جہاںتک بری سیاست کا تعلق ہے تو بقول انگلش مفکر تھامس ہوبز (1588-1679ء) یہ افراد کو دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے ان پر حکمران طبقے کی اجارہ داری مسلط کردیتی ہے۔ ان کے لیے زندگی سوہان ِروح بن جاتی ہے، سماجی اور معاشی قدریں غیر متحرک اور چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو زندہ معاشرے اس سے نجات کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاست ہی اُنہیں جدوجہد کی راہ دکھاتی ہے۔ دراصل جمہوری معاشروں میں آنے والی تبدیلی کو نرم انقلاب کی اک طے شدہ شکل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آج پاکستانی سیاست کو نظریاتی اور طبقاتی تنازعات سے لبریز برطانوی سیاسی تاریخ سے کوئی مناسبت نہیں اور نہ ہی ہم مغربی سیاسی روح اپنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم ہمارے ہاں شہریوں کے مختلف طبقات کی زندگی، آرزو، شکست ِ آرزو اورامکانات کے حوالے سے کشیدگی، تصادم اور کشمکش کا عروج وزوال ضروردکھائی دیتا ہے۔ یہ طاقت کوتحفظ دینے یا اس کے حصول، اور اس مقصد کے لیے عوام کو محدود مفاد کی روشنی دکھاتے ہوئے اپنے ہم قدم کرنے کی کشمکش ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ وسائل اور زندگی کی آسائش حاصل کرنے کا نام ہے تو خواص کے لیے اقتدار کا۔ اس طرح ہم نظریاتی سیاست کی طرف قدم نہیں بڑھاپائے اور آج چھ عشروں کے بعد نہ ہی اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باجود دیگر اسلامی معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں سیاسی عمل جاری ہے اوراسے مکمل طور پر برا یا بوسیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اچھی سیاست کے لیے کچھ چیزوں کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو ریاست کی فعالیت ہے کہ وہ آگے بڑھ کر شہریوں کی ذمہ داری اٹھائے اور دوسرے شہریوں کو دی جانے والی آزادی ہے۔ اس ذمہ داری کے بغیر ریاست اپنا جواز کھو دیتی ہے۔ ہوبز کے مطابق آزادی کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، بلکہ یوںسمجھ لیں کہ طاقت اور تصورات کی کشمکش میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہوبز نے حتیٰ کہ آمریت اور بادشاہت کا بھی دفاع کیا کیونکہ اُسے معاشرے میں انتشار کا خدشہ تھا۔ اگر کوئی طاقت ور اتھارٹی معاشرے کو ایک سیدھ میں رکھ سکے بشرطیکہ عوامی فلاح اور ترقی کا عمل متاثر نہ ہو، تو وہ بھی قابل ِ قبول ہوسکتی ہے۔ یونانی دور کے بہت سے مفکرین کی طرح ،ہوبز کو بھی عام آدمی کی ذہانت اور دانائی پر بھروسہ نہ تھا۔دنیا کے بہت سے مشہور مفکرین اور آمریت کے خطوط پر چلنے والی دانائی، جیسا کہ ہمارے ہاںفوجی حکومت کے پالے ہوئے نام نہاد دانشور اور سیاست دان، آج عام آدمی کی دانائی اور اقتدار کے کھیل میں اس کے حصے کے بار ے میں بہت منفی رائے رکھتے ہیں۔ آج یہ بیانیہ پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مقتدر اداروںکے مقتدر افراد ہی بہتر قومی سوچ اور فعالیت رکھتے ہیں۔ ہمارے عظیم شاعر کو بھی کہناپڑگیا تھا۔۔۔ ''بھروسہ کرنہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر‘‘۔ تاہم یقین رکھنا چاہیے کہ علامہ صاحب کے نزدیک عام آدمی، عام ہوتے ہیں، غلام نہیں۔
ان تصورات کے برعکس شخصی آزادی کا جان لاک (1632-1704ء)کا تصور اور اس کے کام کا گہرا اثر تاریخ کے دھارے کو بہت متاثر کرتا ہے۔ لاک کے نظریات نے بعد میں آنے والے روشن خیال مفکرین اور جدید دور کے جمہوریت پسندوں کی فکری آبیاری کی ۔ امریکی انقلابی اُس سے اتنے متاثر ہوئے کہ اُنھوں نے اپنے آزادی کے اعلامیے میں اس کے نظریات کو ہلکی سے تبدیلی کے ساتھ ''زندگی،آزادی اور خوشی کا حصول‘‘شامل کرلیا۔ لاک کے الفاظ میں خوشی کی جگہ جائیداد ہے، لیکن سچی بات یہ کہ خوشی زیادہ جامع اور پرتاثیر ہے اور پھر لفظ جائیداد سے مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان طاقت کے مراکز کے درمیان کشمکش سے گزررہا ہے۔ ہمارے آئینی نظام میںسکیورٹی اور آزادی، دونوں کو اہمیت حاصل ہے۔ اب تک بری سیاست آشکار ہوتی جارہی ہے۔ لوگ سمجھنے لگ گئے ہیںکہ اُن کے نام پر بری سیاست کرتے ہوئے کچھ طبقات نے ملک کو لوٹا۔ ان کی وجہ سے معاشرے کو حرص نے اپنی گرفت میں لے کر انتشارزدہ کردیا، یہاں تک کہ بدعنوانی معمول کی سرگرمی قرار پائی۔ جب کسی معاشرے میں نوبت یہاںتک آن پہنچے تو عام آدمی کی قوت انتخاب جواب دے جاتی ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کا ووٹ بدعنوانی کا احتساب کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورت میں عدم تحفظ کا احساس شدید تر ہوجاتا ہے یہاںتک کہ انسان جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ تاہم ، ہمیں اس سے پہلے خود کو سنبھالنا ہوگاکیونکہ بہت سے صحافی دوست اس بابت فعال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
http://dunya.com.pk