Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

What should Pakistani do in present situation?

ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
ایک اہم سوال جو اکثر جگہوں پر پوچھا بھی جاتا ہے اور بے شمار ڈسکشن فورمز میں بھی زیر بحث آ رہا ہے ، یہ ہے کہ اس افراتفری اور مایوسیوں کے دور میں جب ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہیں،کہیں سے مثبت خبریں نہیں مل رہیں، لیڈرشپ کا فقدان ہے، جس پر بھروسہ کرو، وہی مایوس کرتا ہے، جماعتیں یا تنظیمیں بھی جمود کا شکار ہیں ... ایسی حالت میں ایک فرد کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ایک خاصا بڑا حلقہ اس تمام صورتحال سے مایوس ہو کر لاتعلق ہوچکا ہے، وہ صرف اپنے ذاتی معاملات پر فوکس کرتے اور اجتماعی منظرنامے سے کٹ چکے ہیں۔ ان سے بات کی جائے تو نہایت مایوسی اور لاتعلقی سے جواب دیتے ہیں،'' یہ سب چور ہیں، کسی کا ساتھ دینے کا فائدہ نہیں‘‘۔ جب استفسار کیا جائے کہ آپ اپنے طور پر کچھ کریں تو لہجے میں کڑواہٹ بھر کر بولیں گے،'' ہمارے پاس اتنا وقت نہیں، ویسے بھی یہاں کچھ نہیں ہونے والا‘‘۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس منفی اور قنوطیت زدہ صورتحال کو دیکھ کر شدت پسندی پر مائل ہوجاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس بگاڑ کو سنوارنے کا واحد طریقہ کسی ایسے گروہ کو برسراقتدار لے آنا ہے ،جو ڈنڈے کے زور پر سب ٹھیک کر دے۔ مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹادیا جائے، تب جرائم ختم ہوجائیں گے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اہل مغرب یہ تجربہ ایک دو صدی پہلے کر چکے ہیں، جب لندن میں ڈبل روٹی چرانے جیسے جرائم کی سزا بھی موت رکھی جاتی تھی، مگر اس سب کے باوجود جرائم کم نہیں ہوئے۔ پھر انہوںنے تعلیم و تربیت پر توجہ دی، سکول کی سطح پر بچوں کی اخلاقی تربیت کا نصاب بنایا، ان میں چند اہم اخلاقی سچائیاں ڈالیں پھر محروم طبقات کے لئے ریلیف کا انتظام کیا، نظم ونسق بہتر بنانے کے لئے ادارے بنائے، انہیں اس قدر مضبوط اور مستحکم کیا کہ بدعنوان عناصر سرائیت نہ کر سکیں، عدلیہ کی آزادی یقینی بنائی، پولیس کے نظام کو اس قدر طاقتور، آزاد اور خود مختار بنایا کہ آج برطانوی وزیراعظم برملا یہ کہہ سکتا ہے کہ برطانوی حکومت بھی پولیس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہ وہ ماڈرن سٹیٹ ہے، جسے تشکیل دئیے بغیر، ڈنڈے کے زور پر معاملات بہتر نہیں بنائے جا سکتے۔
ایک حلقہ اس پیچیدہ اور گنجلک صورتحال سے نکلنے کا واحد حل ڈی کنسٹرکشن یعنی سب کچھ تلپٹ کر دینے میں دیکھتا ہے۔ مثلاً ہمارے لبرل ، سیکولر دانشور اور لکھنے والوں کے خیال میں یہ منتشر سماجی صورتحال مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے ہے۔ ان کے خیال میں واحد حل سیکولر ازم ہے، تمام شدت پسندوں کا صفایا کر دیا جائے، مذہبی قوتوں کی ایسی سرکوبی کہ وہ گردن نہ اٹھا سکیں... اور پھر'' گلیاں ہوون سنجیاں ، وچ مرزا یار پھرے‘‘ کے مصداق سیکولر ہی ہر طرف چھائے نظر آئیں۔ مذہبی بیزاری میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام پاکستانی سماج کے فیبرک کا بنیادی جز ہے۔ مذہبی شدت پسندی کم کرنے کے لئے سیکولر ازم کی نہیں بلکہ مذہب کی اصل تعلیمات پھیلانے اور دینی فکر کی درست تعبیر وتشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک شدت کا علاج دوسری طرز کی شدت سے کیا جاتا ہے۔ حل سادہ ہی ہے، درمیان کی جگہ کو مزید کشادہ کیا جائے، اعتدال اور
توازن کی راہ اپنائی جائے، رویوں اور سوچ کی تربیت اور تہذیب کی جائے۔ ماضی میں یہ کام بڑے بھونڈے طریقے سے کیا گیا۔ سوات میں آپریشن کے بعد وہاں فیشن شو کرا کر سمجھا گیاکہ سوات کا معاشرہ تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ہر علاقے کی اپنی روایات ہیں، ان کا احترام روا رکھنا ہوگا۔ سماج میں شدت کم کرنی ہے تو پھر اس میں علم وادب کی روشنی بھرنی ہوگی۔ پچھلے تین چار عشروں کے دوران ہمارے آس پاس اور ہمارے درمیان بہت خون بہا، بڑی تلخیاں اور کڑواہٹیں مزاجوں میں در آئیں۔ انہیں آہستہ آہستہ نکالنا ہوگا، نرمی لانی ہوگی، علمی ، ادبی، ثقافتی ڈیرے پھر سے آباد کرنے، محفلیں پھر سے سجانی ہوں گی۔ یہ کام بڑی حکمت اور دانش سے کرنا ہوگا۔
یہ کام حکومت اور مختلف سماجی شعبوں کے کرنے کے ہیں، مگر کچھ کام انفرادی طور پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ایک عام آدمی پریشان ہو کر سوچتا ہے کہ اس قدر بگڑی صورتحال میں وہ کیا کرے؟ اس کے ذمے دو تین کام ہیں۔ سب سے پہلے تو اسے خود خیر کا پیام بر بننا ہو گا۔ اپنے اندر نرمی، شائستگی ، حلم اور برداشت لانی ہوگی۔دنیا کے کامل ترین انسان حضورﷺ کی پیروی میں اپنے اخلاق، معاملات کو بہتر بنانا ہو گا۔ یہ کام انقلاب لانے کی جدوجہد سے زیادہ اہم ہے۔ قدرت جب محاسبہ کرے گی تو سب سے پہلے بطور فرد ہی جواب دینا ہوگا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کس قدر خیال رکھا گیا؟ اپنی ذات سے خیر کے کتنے کام ہوئے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیلنس شیٹ بنائی جائے، رات کو دیکھا جائے کہ آج پورے دن میں کتنی نیکی کمائی؟ اپنے اندر بہتری لانے ، خود کو صادق اور امین بنانے کے بعد ہی دعوت کا کام شروع ہوتا ہے ۔سب سے اہم ذمہ داری ان لوگوں تک دعوت بلکہ مسلسل دعوت کا پیغام پہنچانا ہے، جو رعیت ہیں۔ اہل خانہ، شاگرد، زیر اثر لوگ وغیرہ۔ اگلے مرحلے میں اپنے محلے اور آس پاس کے لوگوں تک خیر کے اثرات پہنچنے چاہییں۔ یہ دعوت وتربیت کا کام نہایت تحمل، سمجھداری اور حکمت سے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اچھا طریقہ صوفیا کرام کا ہے، وہ کبھی وعظ نہیں کرتے تھے، اپنی ذات کو رول ماڈل بنا دیتے تھے۔ لوگ ان کو دیکھ کر خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتے تھے۔ جب صوفی اپنی محفلوں میں کسی کی غیبت نہیں کرتا، کسی پر تبصرہ نہیں کرتا، کسی مشکل، کٹھنائی، حتیٰ کہ سخت موسم تک کا شکوہ نہیں کرتا... تو وہاں جانے والے لوگوں کی ازخود تربیت ہو جاتی ہے۔ ہم نے لاہور کے صوفی سکالر سرفراز شاہ صاحب کی محفلوں سے یہی سیکھا۔ اٹھارہ برسوں کے دوران ایک بار بھی شاہ صاحب کی زبان سے کسی کے خلاف کوئی جملہ یا تبصرہ یا طنزیہ مسکراہٹ تک نہیں دیکھی۔
تیسرے مرحلے میں فرد کو اہل خیر یا خیر کی قوتوں کا سپورٹر ہونا چاہیے۔ جہاں اچھا کام ہوتا دکھائی دے، اس کا ساتھ دے، عملی طور پر ممکن نہ ہو تو اخلاقی سپورٹ ہی کر دی جائے۔ اچھا کام کرنے والے خیراتی اداروں، دعوتی تنظیموں، علمی کام کرنے والے اداروں، لائبریریاں قائم کرنے والوں، کتابیں پھیلانے، انہیں ڈسکس کرنے والوں ، سماج میں علمی ذوق پیدا کرنے کی کوششیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ۔ کم سے کم درجہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر اچھے کام کا حصہ نہیں بن سکتے تو تنقید سے باز رہا جائے۔ جو لوگ عملی کام کر رہے ہیں، وہ زبانی باتیں کرنے والے سے ہر حال میں بہتر ہیں۔ چوتھا مرحلہ جو بہت اہم ہے کہ چھوٹے چھوٹے نیکی کے سیل یا مرکز بنائے جائیں۔ ایسے حلقے جو خیر کی کاشت کریں، خیر پھیلائیں اور ایک دوسرے کی اچھے کاموں میں حوصلہ افزائی کریں۔ ایک وقت آئے گا جب یہ تمام سیل اکٹھے ہو کر بڑے نیٹ ورک میں تبدیل ہوجائیں گے اور پھر معاشرے میں بامقصد ٹھوس تبدیلی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ چھوٹے شہروں اور اہم مراکز سے دور رہنے والے بھی اپنی اپنی جگہ پر یہ سب کر سکتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ رب تعالیٰ کو جدوجہد اور کوشش پسند ہے، نتائج قدرت نے دینے ہیں، انسان کا کام صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
Aamir Hashim Khakwani dunya.com.pk